ڈیپریشن سے بچیں(حصہ چہارم)

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

ناکامی سے گھبرا کر جو لوگ اپنے آپ کو کوسنے لگتے ‘اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگتے ہیں ‘یا دوسروں کو برا بھلا کہہ کر اپنی ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ لوگ انجانے میں ڈیپریشن کو اپنی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ماہرین نفسات کے مطابق ناکامی اس قدر خوفناک چیز نہیں ہے۔بلکہ ماہرین کا خیال ہے کہ ناکامی کامیابی کا وسیلہ بن سکتی ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنی مرضی سے ناکامی کا خطرہ مول لیتے ہیں اور پھر اس ناکامی سے سبق سیکھتے ہیں ‘ان لوگوں کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چارلس گارفیلڈنے اپنی ایک کتاب میں کامیابیاں حاصل کرنے کے بہت سے طریقے تحریر کیے ہیں ۔انہوں نے اپنی کتاب میں ناکامی سے بچنے کے لیے ایک بہت ہی اہم نکتہ بیان کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ تاریخ میں جو لوگ کامیاب گزرے ہیں ان کو ”ناکامی کے لفظ سے بہت سخت چڑ تھی ۔ شاز ونادر ہی یہ لفظ ان کی زبان پرآتا تھا ۔کیوں؟اس لیے کہ یہ لفظ منفی احساس پیدا کرتا ہے ۔خوف اور فرار کا اشارہ دیتا ہے ۔محترم قارئین آپ نے بھی کسی نہ کسی کامیاب شخص کے منہ سے بات ضرور سنی ہوگی کہ ناکامی کے لفظ کے لیے میری زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ میرے ایک دوست ہیں محمد رضا ایڈووکیٹ پروقار اور کامیاب شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے پاس ناکامیوں سے دور رہنے کا بہت ہی اچھا طریقہ موجود ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں کبھی کوئی منزل آخری منزل نہیں ہوتی ۔ان کا کہناہے کہ ٹاپ ہمیشہ خالی ہے ۔ محمد رضا کہتے ہیں کہ جو لوگ دل لگا کرمحنت کرتے ہیں کامیابیاں ایسے لوگوں کے قدم چومتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے اگر آپکے دل میں تمنا ہے کہ پاکستان کے صدر بنیں تو یہ مت سوچیںکہ آپکا صدر بننا ممکن نہیں ،اس دنیا میں ہر چیز ممکن ہے آپ اپنے اندر وہ خوبیاں پیدا کریں جوصدر بننے کے لیے لازم ہیں اور اپنی تمنا کومنفی سوچ میں ڈبونے کی بجائے مثبت طریقے سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں تو آپکوفائدہ ہی فائدہ ہوگا ۔

ضروری نہیں کہ آپ صدر پاکستان بن پائو لیکن بن بھی سکتے ہواوراگر نہ بھی بن پائے توبھی بہت کچھ سیکھ جائو گے جوزندگی میں کام آئے گا،اوراگر یہ سوچ لیا کہ کچھ نہیں کرسکتے توتمنا کی موت کے ساتھ ساتھ آپ احساس کمتری کاشکار ہوسکتے ہیں جومیرے نزدیک زندگی کی سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے۔ جو لو گ ناکامی کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں ،ناکامی ایسے لوگوں کے آگن میں ڈیرے ڈال لیتی ہے ۔میرے خیال ڈیپریشن کے پیچھے کوئی نہ کوئی ناکامی ضرور ہوتی ہے ۔لیکن میراخیال حتمی نہیں ہے اور نہ ہی میری رائے اس مرض کے راستے میں بندباندھ سکتی ہے۔ماہرین نفسیات کے کچھ مفید مشورے ہیں جن پر عمل کرکے ہم ڈیپرشن سے بچنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیپریشن دور قدیم میں بھی موجود تھا لیکن بہت کم ۔جودورجدید کی عام پھیل جانے والی بیماریوں میں سے ایک ہے۔

اس کی علامتوں میں طبعت میںبے چینی’بھوک کی کمی ‘چڑچڑا پن’گھبراہٹ’ بے خوابی ‘ذہنی انتشار’اور تھکاوٹ وغیرہ کے احساس سے لے کر جذباتی بے چینی اور خودسوزی کے خیالات تک شامل ہیں ۔پہلے پہلے ڈیپریشن کو عمر کے درمیانے اور آخری حصے برسوں کی بیماری سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اب ڈیپریشن کی بیماری نوجوانوں اور چھوٹی عمر کے بچوں میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ڈیپریشن کے مریضوں کی تعداد اتنی تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے ؟نوجوان اور بچے اس کی زد میں کیوں آنے لگے ہیں ؟ یوں تو ان سوالات کے بہت سے جوابات ہیں لیکن ان میں سے کوئی حتمی نہیں ہے ۔ امریکی صحت کے قومی ادارے کے ڈاکٹر رابرٹ فلیڈ بدلتے دور میں ہونے والی معاشرتی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔گزشتہ پچاس برسوں میں عورتوں اور مردوں کے روایتی رول بدل گئے ہیں۔بڑی تعداد میں عورتیں محنت مزدوری اورملازمتیں کرنے لگی ہیں۔لاکھوں افراد روزگار اورکاروبار کے مواقع کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگے ہیں۔اس طرح وہ اپنے خاندانوں اور دوستوں کی قربت اور تاون سے محروم ہورہے ہیں ۔

Depression

Depression

ڈاکٹر رابرٹ فلیڈ ڈیپریشن کو دوبڑی قسموں میں کچھ اس طرح تقسیم کرتے ہیں ۔ایک تو سادہ ڈیپریشن ہے ‘جووقتی طور پرطاری ہوتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد فوری ختم ہوجاتا ہے ۔دوسری قسم کلینیکل ڈیپریشن ہے یہ شدید قسم کا ڈیپریشن ہے۔ ماہرین اس سے محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔کیونکہ یہ کلینیکل ڈیپریشن خاصا اذیت ناک ہوتا ہے ۔اس کے علاج کے لیے تربیت یافتہ ماہرین کی خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے ۔راقم کے خیال میں اگرہم دوسروں کو کم تر سمجھنے کی بجائے اپنے جیسا انسان تصور کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ دکھ درد شئیر کرتے رہیں ،فارغ وقت کو قیدیوں کی طرح اپنے اپنے کمروں میں بند ہونے کی بجائے دوسروں کے ساتھ مل بیٹھ کر گزاریںتونہ صرف ہم خودکو بلکہ دوسروں کو بھی ڈیپریشن جیسے خطرناک مرض سے بچا سکتے ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ تنہائی کا دوسرانام ڈیپریشن ہے ، اس لیے میں اپنے قارئین کو مشورہ دوں گا کہ اگر آپ ڈیپریشن سے بچنا چاہتے ہیں تو تنہائی سے بچیں۔ جہاں تک بات ہے شفا کی تووہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے ۔زندگی رہی تو آپ کی خدمت میں ڈیپریشن سے بچنے کے کچھ اورطریقے پیش کروں گا۔آج اس دعا کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنی خاص رحمتیں نازل فرماے اور ہر بیماری و مصیبت سے محفوظ رکھے۔اپنی دعاؤں میں خاکسار کو بھی یاد رکھیے گا۔

تحریر : امتیاز علی شاکر