کراچی، مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں

karachi

karachi

لکھ رکھیئے، کسی لیپاپوتی، کسی انتظامی تبدیلی، کسی منافقانہ مفاہمت، کسی شرکت اقتدار اور کسی شاطرانہ چال سے سیل خوں میں ڈبکیاں کھاتے کراچی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جان لیجئے کہ کسی ہنر کار افسر کی قیادت میں پولیس کوئی معجزہ رقم نہیں کرسکے گی، رینجرز آگ اور خون کے سامنے کبھی بند نہیں باندھ سکیں گے، ایف سی کوئی انقلاب نہیں لاسکے گی اور فوج کراچی کی بنیادوں میں بھردیئے جانے والے بارود کو کبھی ناکارہ نہیں بناسکے گی۔ مرض کی تشخیص اور اس کے اسباب و محرکات کا سراغ لگانے کے بعد، ایک نسخہ تجویز کرنا ہوگا اور پھر عمومی اتفاق رائے کے ساتھ بھر پور قومی عزم سے اسے روبہ عمل لانا ہوگا۔ یہ کارمحال رحمان ملک، بابراعوان، ذوالفقار مرزا، منظور وسان اور قائم علی شاہ جیسوں کے بس میں نہیں اور یہ کام شاید صدر آصف علی زرداری کی صلاحیتوں سے بھی ماوری ہے جن کا سارا کمال فن قومی و ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کر ایسی مفاہمت کاتانا بانا بننا ہے جو ان کے سیاسی مفادات کا جامہ زیبا بن سکے۔
کور کمانڈرز نے اپنے گزشتہ اجلاس میں کراچی کی صورت حال پر باضابطہ تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اب چیف آف آرمی اسٹاف نے کراچی کی صورت حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے طلب کیا تو فوج کراچی میں کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ ادھر کوئی بیسویں بار ٹارگٹ کلنگ بند کرادی کی خوشخبری دینے اور آئے روز متضاد بیانات کی پھلجھڑیاں چھوڑنے والے رحمان ملک کا کہنا ہے کہ فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، اسے کراچی نہیں لاسکتے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے قوم کو یہ نوید بھی سنائی ہے کہ کراچی میں بھتہ مافیا طاقتور ہوچکا ہے۔ بھتہ نہ دینے والوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کا علاقہ چھیننے کی کشمکش جاری ہے۔ اس سے قبل رحمان ملک آگ اور خون کے اس سونامی کا رشتہ ناراض بیویوں اور دل برداشتہ گرل فرینڈز کے ساتھ بھی جوڑ چکی ہیں۔ وہ یہ بھی فرماچکے ہیں کہ قتل وغارتگری میں اسرائیلی اسلحہ استعمال ہورہا ہے۔
ان کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ایک دوست افریقی ملک نے اہم معلومات فراہم کی ہیں اور ان افراد کی فہرست دی ہے جو ان وارداتوں میں ملوث ہیں۔ کروڑوں کے کاروبار کی تباہی سے دوچار ہراساں اور پریشان حال تاجر طبقے کے بارے میں ملک صاحب نے ارشاد فرمایا۔  بھتے کی پرچی ملنے پر انتظامیہ کو مطلع نہ کرنیوالے تاجر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ کون سی انتظامیہ ملک صاحب! کیا کراچی میں کوئی انتظامیہ ہے؟ بی بی کی حکومت کے دوران نصیر اللہ بابر نے ایک موثر کارروائی کا علم اٹھایا تھا۔ ملک صاحب کو فرصت ملے تو قوم کو بتائیں کہ اس مشن میں کردار ادا کرنے والے کتنے پولیس افسر اور اہلکار آج زندہ ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ کس انجام سے دو چار ہوئے۔ جہاں انتظامیہ نام کی کوئی شے ہوتی ہے وہاں کروڑوں کے بھتے لئے جاتے ہیں نہ لوگ یوں گاجر مولی کی طرح کٹتے ہیں۔
سندھ کے وزیر داخلہ، جو انتظامیہ کے براہ راست سربراہ ہیں، فرماتے ہیں کہ ہم مجرموں کو پکڑیں تو مشکل چھوڑیں تو مشکل۔ جہاں وزیر داخلہ ایسی بے بسی کا اظہار کررہا ہو اور جہاں خود ملک صاحب بھتہ مافیا کے انتہائی طاقت ور ہوجانے کا مژدہ سنارہے ہوں، کیا وہاں انتظامیہ نامی کوئی شے بھی ہوتی ہے۔ تاریخی طور پر کراچی اور حیدر آباد بڑے تجارتی، کاروباری اور صنعتی مراکز ہونے کے باعث، سندھ کی معیشت کی بنیادی عوامل رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوں کی نقل مکانی کے باعث اہل سندھ کو یہاں غلبہ حاصل ہوگیا۔ بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد کے بعد، بتدریج سندھی اقلیت میں چلے گئے اور مہاجر آبادی کو اکثریت حاصل ہوگئی۔ اس کے باوجود سندھی مہاجر تنازعہ پیدا نہ ہوا۔ کوئی رنجش ہوئی تو فتنہ نہ بنی۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران مہاجر قومی موومنٹ کی کونپل پھوٹی۔ تب یہ سمجھا گیا کہ جی ایم سید اور بھارت نواز قوم پرستوں کے توڑ کیلئے یہ کارگر نسخہ سامنے آیا ہے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں اس سے سندھ میں لسانی تقسیم کی ایک لکیر ابھری۔
چونکہ مہاجرین کی اکثریت سندھ کے انہی دو متمول شہروں میں تھی، اس لئے لسانی تقسیم کی لکیر، دیہی اور شہری تفریق کی لکیر بھی بن گئی۔ ایم کیو ایم نے مہاجر کے تشخص کو سختی کے ساتھ اردو بولنے والے طبقے سے جوڑ دیا۔ بعدازاں مہاجر قومی موومنٹ، متحدہ قومی موومنٹ تو بن گئی لیکن وہ اپنے خمیر سے ناتا نہ توڑ سکی۔ اردو آج بھی اس کا مرکز ثقل ہے۔ وہ اسی تصور سے اپنی طاقت کشید کرتی ہے۔ حال ہی میں جب الطاف بھائی نے بھارتی قیادت سے مہاجرین کو واپس اپنی آغوش میں لے لینے کی اپیل کی تو ان کا اشارہ واضح تھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ سندھ کے دو متمول ترین شہر ایم کیو ایم کے حلقہ اثر میں ہیں۔ دیہی سندھ میں زبردست احساس محرومی پایا جاتا ہے،جہاں لوگوں کا خیال یہ ہے کہ معیشت کے دوبڑے مراکز، ان کی ترقی و خوش حالی میں کوئی کردار ادا نہیں کررہے۔ 1988 کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آئیں لیکن سندھ کے گاں گوٹھ کسی انقلاب سے ہمکنار نہ ہوئے۔ کراچی اور حیدر آباد کے حوالے سے ان کی مصلحتیں آڑے آتی رہیں۔ میاں نواز شریف کی دو حکومتوں کے دوران بھی کوئی حل نہ نکالا جاسکا کہ ان کے لئے دیہی اور شہری سندھ، دونوں کی اپنی اپنی حساسیت تھی۔ البتہ حکیم سعید کے قتل کے بعد انہوں نے ایم کیو ایم سے راستے الگ کرلیے۔ شکر رنجی کی یہ کیفیت آج تک موجود ہے۔
معاملات میں نئی گرہیں پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں پڑیں۔ کراچی سے تعلق اور اردو اسپیکنگ مہاجر کی حیثیت سے انہوں نے اپناپورا وزن ایم کیو ایم کے پلڑے میں ڈال دیا۔ دیہی سندھ میں انہوں نے مسلم لیگ (ق) کاشت کرلی۔ ق کے کرتا دھرتا چوہدری برادران تھے۔ان کی تمام تر دلچسپیوں کا مرکز و محور پنجاب تھا جہاں مشرف نے انہیں کھلی چھٹی دے دی۔ کراچی اور سندھ کا معاملہ انہوں نے مشرف کی صوابدید پر چھوڑ دیا اور خود پرست ڈکٹیٹر نے اپنی صوابدید کو قومی مفاد سے عاری تعصب کی نذر کردیا۔ مشرف کو دیہی سندھ سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ یوں بھی پیپلزپارٹی کے اس قلعے میں دراڑیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے سندھ کی وزارت اعلی مسخروں کیلئے وقف رکھی جنہیں اپنے ذاتی پروٹوکول اور اقتدار کے کروفر سے زیادہ کسی چیز سے دلچسپی نہ تھی۔ وہ اپنے اختیار منصبی کو دیہی شہری تقسیم میں توازن پیدا کرنے، وسائل کی منصفانہ فراہمی کو یقینی بنانے اور کراچی کے مخصوص مسائل کے تناظر میں دیر پا ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت ہی سے محروم تھے۔ آمریت میں یوں بھی اختیار مطلق فرد واحد کی مٹھی میں ہوتا ہے اور دستر خوانی قبیلے کو محض لقمہ تر سے دلچسپی ہوتی ہے اس لئے کوئی بھی اصولوں اور نظریوں کا روگ نہیں پالتا اور کسی کو قومی مفاد یا اصلاح احوال سے کچھ غرض نہیں ہوتی۔
ہفتہ کی شب، یار طرحدار میجر عامر کی افطاری میں حضرت مولانا فضل الرحمن میر مجلس تھے۔ مجھے ان کے پہلو میں بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کے بائیں ہاتھ جنرل احسان الحق تشریف فرما تھے۔جنرل صاحب مشرف عہد میں نہایت اہم عہدوں پہ فائز رہے۔ ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ رہے۔ آئی ایس آئی کے دائریکٹر جنرل رہے۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ کراچی گفتگو کا موضوع تھا۔ میں نے جنرل صاحب سے پوچھا آپ بے حد توانا انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ رہے۔ کیا واقعی کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کراچی میں قتل و غارت گری کے سرچشمے کہاں ہیں؟ یہ بھتہ مافیا، اسلحہ مافیا، ڈرگ مافیا، قبضہ مافیا کیا بلائیں ہیں؟ کیا واقعی ان کا اتہ پتہ کوئی نہیں جانتا؟۔ جنرل صاحب نے ایک دبادبا سا قہقہہ لگایا جیسے میرے سوال کی معصومیت پر ہنس رہے ہوں۔ پھر وہ سنجیدہ ہوگئے اور بولے۔  سب جانتے ہیں۔ سب کو پتہ ہے۔ اگر نچلی سطح کے کارندوں کا نہیں تو ان کے ماسٹرز کو سب جانتے ہیں۔ میرا اگلا سوال تھا۔  کیا مشرف بھی جانتا تھا؟ وہ مسکرائے اور بولے۔  کیوں نہیں جانتا تھا۔ وہ فوج کا سربراہ رہا ہے۔
نواز شریف دور میں حکیم سعید قتل ہوئے تو پرویز مشرف چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔  میں جنرل صاحب کے اس مختصر سے جواب سے بہت کچھ پاگیا لیکن ایک نیا سوال کیا۔  جب مشرف خود مملکت کا سربراہ، چیف ایگزیکٹو اور فوج کا بھی سربراہ تھا تو اس نے ان ماسٹروں اور ہیڈ ماسٹروں کے خلاف کیوں کارروائی نہ کی۔ جنرل صاحب کا دل ان کی زبان تک آگیا۔ وہ کچھ کہنے لگے اور پھر یکایک رک گئے۔
تحریر  :  عرفان صدیقی