کراچی پر بیان بازی اور نہتے صحافی

Rohail Akbar

Rohail Akbar

پیر کو اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید نے کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرار دادسینٹ میں پیش کی جو کثرت رائے سے منظور کر لی گئی قرار داد کی ایم کیو ایم نے مخالفت،پیپلز پارٹی اے این پی اور مسلم لیگ(ن) سمیت تمام جماعتوں نے حمایت کی شہر قائد میں ہر روز پندرہ سے اٹھارہ افراد شہید ہورہے ہیں جبکہ سیاسی قیادت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے سیاسی بھرتیوں کی بدولت پولیس امن و امان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہے کراچی پولیس میںبڑے اور طاقتور لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت بھی نہیں رہی جبکہ رینجرز کی موجودگی کے باوجود حالات خراب ہوتے جارہے ہیں نصیراللہ بابر کے دور میں کراچی میں کامیاب آپریشن ہوا جبکہ حکومت بدلتے ہی آپریشن کرنے والے پولیس افسران زیر عتاب آگئے اب بھتہ مافیا مذہب کے نام پر بھی بھتہ وصول کررہے ہیں جبکہ بعض سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر بھی بھتہ لیا جارہا ہے اور تو اور قربانی کے جانوروں کی کھالیں بھی بھتے کے طور پر لی جاتی ہیں کراچی کو بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے کراچی میں ہر شہری کو رہنے کا حق حاصل ہے کراچی میں نیٹو کے ہزاروں اسلحہ کنٹینر بھی غائب کردیے گئے ہیں کراچی میں کریمنل مافیا’ بھتہ مافیا’ ٹارگٹ کلرز اور طالبانائزیشن تیزی سے پھیل رہی ہے گذشتہ پانچ سال سے ملک جل رہا ہے مگر اس طرف سوائے بیان بازی کے اور کوئی خاص پیش رفت نہیں کی گئی نام نہاد مفاہمتی سیاست کے باعث لوگوں کو خون میں نہلا کر عوام کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایاجارہا ہے اس وقت ملک میں کوئی شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے صاحب اقتدار لوگوں کے پاس سارے اختیارات ہونے کے باوجود کیوں وہ حالات کو ٹھیک نہیں کررہے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کراچی میں حکومتی اتحاد میں شامل تینوں جماعتوں کے نو گو ایریاز ہیں تینوں جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی ہیں اور شام کو وفاقی کابینہ کی میز پر اکٹھی بیٹھ جاتی ہیں غریب آدمی مر رہا ہے اورسب صرف تقریریں کررہے ہیں۔

کراچی میں بہتر حکومت کیلئے لوکل گورنمنٹ ضروری ہے اور جب تک بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جاتے امن و امان کی صورتحال خصوصاً کراچی میں معاملات درست نہیں ہوں گے سیاسی جماعتوں کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ کراچی انتہائی اہم شہر ہے اگرسیاستدانوںنے اس طرف توجہ نہ دی تو پھر ہمیں تاریخ کبھی بھی معاف نہیں کرے گی صرف کراچی کا ہی نہیں پورے پاکستان کا مقابلہ ایک ایسی ذہنیت سے ہے جس نے ایک نیا ہتھیار پیدا کردیا اور اس کا نام خودکش حملہ ہے اور اس کی ذہنیت یہ ہے وہ فوراً جنت میں جائے گا اور باقی لوگ جہنم واصل ہوجائیں گے۔ ہمیں اس ذہنیت کو تبدیل کرنا ہوگا اور اس کا حل صرف اور صرف برداشت اور علم ہے اور اسی کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ہمیں یہ بھی زہن میں رکھنا چاہیے کہ ملکی حالات کو جان بوجھ کرخراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ایک اور بات بھی خصوصی توجہ طلب ہے کہ آج تک تحریک طالبان کا ایک شخص بھی ڈرون حملے میں نہیں مارا گیا ان لوگوں کو مارا جاتا ہے جو پاکستان کے محب وطن شہری ہیں گذشتہ روزراولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ اور نیشنل پریس کلب کے زیر اہتمام پاکستان میں پہلی بار انٹرنیشنل جرنلسٹ ڈے منایا گیا، جس میں صحافیوں، پارلیمنٹرینز، سول سوسائیٹی کے نمایندوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی اس موقعہ پر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ صحافیوں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔

صحافی ملک کا وہ جانباز سپاہی ہے جو نہتا ہوتے ہوئے بھی اپنے قلم کے زور پر ملک و قوم کے دفاع کیلئے اپنے آپ کو قربان کر دیتا ہے اور شہید ہوجانے والا صحافی بجا طور پر ان تمام مراعات و اعزازات کا مستحق ہے جو کہ دفاعی اداروں سے منسلک شہداء کوفراہم کئے جاتے ہیں تقریب کا مقصد ان تمام شہید ہو جانے والے صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا جوپاکستان میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

تحریر : روہیل اکبر 03466444144