کسی ڈرے ہوئے ملک کی سہمی ہوئی آواز

pak amrirca

pak amrirca

دنیا کے امن کے ظاہری ٹھیکیدار امریکہ بہادر نے پوری دنیا کے امن کو کسی نہ کسی انداز میں خود ہی براہ راست یابالراست تہہ وبالا کیا ہواہے،کہیں وہ خود ممالک پر غاصبانہ قبضہ کئے بیٹھا ہے تو کہیں اس کے حواری اور غلام کٹھ پتلی حکمران عوام پرظلم ڈھارہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے خلاف مسلم دنیا،بالخصوص پاکستان اور ایران کی عوام میں شدید نفرت اور بے چینی پائی جاتی ہے،حالیہ دنوں میں امریکی مسلح افواج کے سربراہ مائیک مولن اور دیگر امریکی عہدیداروں کی جانب سے پاکستان پرلگائے جانے والے الزامات نے پاکستانی عوام کی نفرت میں مزیداضافہ کردیاہے،جس کے باعث وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 29 ستمبر کو ملک بھرکی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقادکیا،اور وزیراعظم کی دعوت پر منعقدہونے والی کل جماعتی قومی کانفرنس ایک متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد مکمل ہوگئی،گیارہ گھنٹے طوالت پر مبنی یہ کانفرنس اِس لحاظ سے کامیاب رہی کہ میزبان مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ایک متفقہ قرار دادمنظور کرانے میں کامیاب ہوگئے،لیکن اِس کامیابی کااعزاز بھی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ہی جاتا ہے جو بہت سے امور پر اختلاف رائے رکھنے کے باوجود اِس بات پر ہمیشہ متفق اور یکجا رہے کہ جب بھی پاکستان کو سلامتی کے حوالے سے کوئی نازک معاملہ درپیش ہوا تویہ سیاسی قائدین اور جماعتوں نے ہمیشہ متفقہ موقف اختیار کیا،سوائے اِس ایک بات کے ہمیں وزیراعظم کی آل پارٹیز کانفرنس میں اور کوئی نئی بات نہیں نظرآئی،ہاں یہ کہنا کہ پاکستان پر دہشت گردی ایکسپورٹ کے الزام کو غلط ہے،ہم غیر ملکی فوجی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے،یا پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کیا جائے گا۔یہ باتیں تو حکومت ہمیشہ ہی کہتی رہے ہے،جبکہ حکومت سے باہر سیاسی جماعتیں یہ مطالبہ بھی کرتی رہی ہیں کہ حکومت اکتوبر 2008 سمیت پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں پرعمل کرے،مگر حکومت نے اِس مطالبے کو ہمیشہ صرف نظر کیا،اب وزیراعظم کی زیر سربراہی اے،پی،سی میں ایک بار پھر یہی باتیں دہرائی گئی ہیں ۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اے،پی،سی کے متفقہ موقف کے باوجود امریکہ کی رٹ اب بھی وہی ہے،گذشتہ دنوں سی آئی اے کے سربراہ نے بریفنگ دیتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ امریکہ کو کسی علاقے میں آپریشن کیلئے ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں ہے،اصل سوال تو یہی ہے کہ امریکی ایماپر پاکستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن کیوں کیاجارہا تھا اور مزید آپریشن کیلئے زور کیوں دیا جارہا ہے، ہمارے وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان پر ڈومور کیلئے دباو نہیں ڈالاجاسکتا،مگر امریکی انتظامیہ کے بیانات کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں،میاں نواز شریف نے دال میں کچھ کالا کہہ کر اِس میں مزید معنی خیزی پیدا کردی ہے،حیرت ہے کہ اِس کے باوجود اے،پی،سی کے اعلامیے میں یہ درخواست کی گئی ہے کہ پاکستان کے قومی مفادات کا احترام کیاجائے،جبکہ قوم کے سامنے اصل معاملے یعنی حقانی نیٹ ورک اور دہشت گردی ایکسپورٹ کے حوالے سے ہونی والی کوئی بات سامنے نہیں آئی،ایسا لگتا ہے کہ ِاس حوالے سے کوئی بات ہوئی ہی نہیں،یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ڈومور کے یہ سارے مطالبات کس وجہ سے ہورہے ہیں، حقائق جو بھی ہوں،بہرحال اصل معاملہ امریکی دہشت گردی کی نام نہاد جنگ ہے،نائین الیون کے بعد جب سے پاکستان اِس جنگ کا حصہ بنا ہے،اس وقت سے یہ ساری مصیبتیں پاکستان پر نازل ہورہی ہیں،بلاشبہ امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی حمایت کرکے پاکستان کچھ بھی حاصل نہ کرسکا،آج پاکستان کی معیشت روبہ زوال ہے،توانائی کاقحط پڑگیا ہے،عوام بھوکوں مررہے ہیں،غربت وافلاس،بے روزگاری اور بدامنی نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے،تخریب کاری اور دہشت گردی روز مرہ کا معمول بن گئی ہے اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہے ۔ دوسری طرف ملکی خودمختاری،آزادی اوراستحکام کو بھی شدیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں،ہرسطح پرشدید عدم تحفظ برپاہوگیا ہے اور پوری قوم بے یقینی اورناامیدی کی دلدل میں جاگری ہے،ہمارے اِن تمام تر حالات کی بنیادی وجہ خطے میں بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت،امریکی اورنیٹو افواج کے فوجی اڈوں کا قیام،طاقت کا غلط استعمال اور وہ خوفناک پالیسیاں ہیں،جن کی بناپر خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا،دس سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود امریکہ جنگ کے مطلوبہ اہداف تک رسائی میں ناکام ہے تو اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ کسی مقصد کے بغیر مسلط کی گئی،اگر اسامہ بن لادن سمیت چند ہزار افراد کی گرفتاری یا قتل اِس جنگ کا مقصد تھا تو بھی امریکہ کو کامیاب قرار نہیں دیاجاسکتا،اِس لیے امریکہ کی پریشانی میں بظاہرکوئی کمی واقع نہیں ہوئی،دس سال کے دوران پوری قوت استعمال کرنے کے باوجود امریکہ افغان حریت پسندوں کے خاتمے سے عاجز آگیا اور اسے مذاکرات کا دروازہ کھولنا ہی پڑا،یہ وہ حقیقت ہے جو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے،پھر بھی کہ آل پارٹیزکانفرنس میں اِس اہم مسئلہ کو نہیں چھیڑا گیا،نہ ہی اِس حوالے سے کوئی خبر جاری گی گئی،جو اعلامیہ جاری کیا گیا وہ نہایت ہی نرم،مبہم اور حکومت کی خواہشات کا عکاس معلوم ہوتا ہے،تعجب خیز امر ہے کہ وہ جماعتیں جو اِس حوالے سے مختلف موقف رکھتی ہیں اور ہر موقع پر یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ پاکستان امریکی جنگ سے الگ ہوجائے اور امریکی مداخلت ختم کی جائے،مگرکانفرنس کے اعلامیے کودیکھتے ہوئے تو یہی لگتا ہے کہ اِن جماعتوں نے یا تو خاموشی اختیارکی یا پھر اپنا موقف ہی تبدیل کرلیا ہے،حالانکہ موجودہ حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس کا واحد اور فیصلہ کن مطالبہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سب سے پہلے پاکستان امریکی جنگ سے الگ ہونے کا اعلان کرے اور امریکی ایجنسیوں افواج اور حلیفوں کو ملک سے نکالا جائے،مگر افسوس ایسا نہیں کیا گیا،حالانکہ اِس حقیقت سے سب آشنا ہیں کہ عسکریت پسند افغانستان سے پاکستان منتقل نہیں ہورہے بلکہ امریکی عسکریت پسند افغانستان میں شکست کے بعدنیا ٹھکانہ ڈھونڈرہے ہیں اور وہ حقانی نیٹ ورک کی آڑ میں پاکستان منتقل ہونا چاہتے ہیں،دوسری طرف جس حقانی نیٹ ورک کے نام پاکستان سے تعلقات خراب کیے جارہے ہیں،پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کوبدمعاش ثابت کیاجارہاہے،امریکہ نے اب تک اس کو دہشت گرد قرارنہیں دیا،صرف امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے اتنا کہ دینے سے کہہم حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قراردینے کے فیصلے کے قریب پہنچ چکے ہیں معاملہ اِس لیے صاف نہیں ہوتا،کہ اگر حقانی نیٹ ورک دہشت گرد نہیں ہے تو پھر اس کی خاطر پاکستان کو دھمکیاں کیوں دی جارہی ہے،کیوں پاکستان کے خلاف بھانت بھانت کے الزامات لگائے جارہے ہیں،لہذا اِس تناظر میں اے،پی،سی کا اعلامیہ بے معنی اور غیر اہم معلوم ہوتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے ایجنڈا کو مختلف حلقے حالات کی نزاکت کے مطابق عوامی جذبات اور خواہشات کا عکاس اور ملکی بقاکے عین مطابق قرار نہیں دے رہے،اِس کانفرنس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور آئی ایس آئی کے چیف احمد شجاع پاشا دونوں کے بیانات میں واضح یکسانیت نظر آتی تھی،چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کانفرنس میں کہا کہ امریکی دھمکیوں سے نمٹنے کیلئے سیاسی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت تھی،جو میسر آگئی لیکن دوسری طرف سیاسی مبصرین حیران ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی کانفرنس میں سفارت کارانہ زبان استعمال کی حالانکہ آل پارٹیز کانفرنس قومی جذبات اور قومی تقاضوں کو پورا کرنے کے اعلامیہ کی متقاضی تھی،گو متفقہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملکی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا،وزیراعظم گیلانی نے بھی کہا ہے کہ مزید ڈو مور نہیں چلے گی،جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا،قوم سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگی،لیکن جو حکمران اپنی قرار داد میں امریکہ کا نام لے کر اس کے جارحانہ عزائم کی مذمت نہیں کرسکتے وہ اِن دعووں کو کس قدر عملی جامہ پہنا سکتے ہیں،عوام خوب واقف ہیں،دراصل محترم وزیر اعظم صاحب کی یہ باتیں وہی ہیں جو ہمارے حکمران ایک عرصے سے کرتے چلے آئے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ عزم حوصلے اور عملی اظہار سے محروم یہ دعوئے صرف ان کے جذبا ت کو تسلی دینے کیلئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ قرار داد میں کہی گئی بات کہ حقانی گروپ افغانستان میں متحرک ہے پاکستان میں نہیں کے جواب میں ہلیری نے مزید دھمکی دی کہ پاکستان سے مضبوط بنیادوں پر تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں،مگر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان ختم کرے،دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت ہمارے کئی معاملات پر مفادات مشترکہ ہیں،خیال رہے کہ اِس سے قبل مائیک مولن بھی واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں جن میں بہتری کی توقع نہیں،مگر کانفرنس میں سیاسی لیڈروں نے اعلامیہ کی صورت میں جو زبان استعمال کی،وہ اِس لحاظ سے زیادہ خوش آئند نہیں کہ اِس میں وہ جذبہ دکھائی نہیں دیا جو وزیراعظم کے افتتاحی خطاب اور آئی ایس آئی چیف کی بریفنگ میں تھا،یوں لگتا ہے کہ اعلامیہ خدا سے زیادہ امریکی طاقت سے خوفردہ کسی ڈرے ہوئے ملک کی سہمی ہوئی آوازہے،اِسی وجہ سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اے،پی،سی نشتند،گفتند،برخاستند سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے،رہی بات امن کو موقع دو کے رہنما پالیسی اصول کی،جس کا مشترکہ اعلامیہ میں اعلان کیا گیا،یقینا اچھی بات ہے،مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یک طرفہ امن کی خواہش کبھی بھی پروان نہیں چڑھائی جاسکتی،اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ دبی دبی زبان میں ڈو مور تسلیم کرنے کی گنجائش رکھ ابھی پرانی تنخواہ پر امریکی نوکری جاری رہے گی ۔تحریر :۔ محمد احمد ترازی