کسی کو منصف بنائیں

Parrot

Parrot

بہت پہلے ایک حکایت نگاہ سے گزری تھی وہ کچھ یوں تھی کہ ایک طوطا اور طوطی کسی بستی کے اوپر سے گزرے اور اسے ویران دیکھ کر نیچے اترے۔ایک درخت کی شاخ پر بیٹھ گئے اور گفتگو کرنے لگے کہ یہ کیسی بستی ہے جو اجڑی ہوئی ہے دور دور تک آبادی نہ ہونے کے مترادف ہے ہر گھر سے نحوست ٹپک رہی ہے ہر چہرہ پریشان ہے کسی بھی فرد کے چہرے پر اطمینان وداحت نظر تک نہیں آ رہی۔ایسا ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا جو اس بستی میں دیکھ رہے ہیں ،یہاں پر تو ہمیں بھی کچھ کھانے پینے کی امید نظر نہیں آ رہی۔

طوطی نے پوچھا ایسا پر ہے کیوں اس بستی کے اجڑنے کا سبب کیا بنا ہوگا؟طوطا بولا وہی سبب ہے جو نحوست کیلئے مشہور ہے ،طوطی بولی وہ کیا؟ طوطا کہنے لگا تمہیں نہیں پتہ نحوست کا سبب الو ہوتا ہے یہاں الو زیادہ ہوں گے اس لیے یہ بستی اجڑ گئی ہے۔ اتفاق سے قریب ہی دوسرے درخت پر ایک الو بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا۔وہ ان کی باتیں سن کر بہت غصے میں آیا لیکن اپنا غصہ پی گیا جب شام کو یہ طوطا اور طوطی واپس جانے لگے تو وہ الو ایک دم ان کے سامنے آگیا اور کہنے لگا کہ تم دونوں شاید بہت دور آئے ہو تھکے ہوئے پردیسی لگتے ہو۔

آؤ کچھ دیر کیلئے میرے آشیانے پر تمہاری کچھ خدمت کروں۔طوطا اور طوطی توتھے ہی صبح کے بھوکے انہوں نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو کچھ کھانے پینے کی سبیل توبنی۔ الو دونوں کو لے گیا اور خاطر مدارت کرنے لگا۔ جب رات کو یہ جانے لگے تو الو نے کہا کہ رات بہت ہوگئی ہے تم یہیں قیام کر لو صبح چلے جانا دونوں مان گئے۔ صبح کو الو نے اچھا ناشتہ کروایا اور کہنے لگا کہ رات کو تم لوگ تھکے ہوئے تھے آج یہیں میرے پاس قیام کرو تاکہ بیٹھ کر اطمینان سے باتیں کریں گے۔دونوں نے رضامندی کا اظہار کیا اور بیٹھ گئے۔

رات کو پھر جانے لگے توالو نے کہا کہ رات ہوگئی ہے کل چلے جانا۔اسی طرح تین چار دن لگا تار الو نے انہیں روکے رکھا۔اخر ایک دن تنگ آکر الوسے طوطے نے کہا کہ آج ہم لازمی چلے جائیں گے اور تم اجازت دو ،الو بولا ٹھیک ہے تم چلے جاؤپر میری بیوی کو یہیں رہنے دو۔ طوطا بولا کون سی بیوی؟ الو نے کہا کہ یہ جو طوطی تمہارے ساتھ ہے یہی تو میری بیوی ہے۔طوطا غصے سے لال پیلا ہو گیا کہنے لگا کیا بکواس کر رہے ہو یہ تمہاری بیوی کیسے ہوسکتی ہے؟اس کی جنس ،اسکا رنگ،اسکی نسل،اسکی بول چال الو جیسی نہیں ہے یہ طوطی ہے اور میری بیوی ہے اس کا فیصلہ تواندھا بھی کردے گا کہ یہ میری بیوی ہے تم مذاق نہ کرؤ ہمیں جانے دو۔

الو بولا نہیں یہ میری ہی بیوی ہے اگر تمہیں بہت ناز ہے منصفی کا تو جاؤ کسی کو ثالث مقرر کرلو جو فیصلہ وہ کرہے گا مجھے منظور ہوگا۔طوطا بڑے فخر سے بولا یہ کوئی مسلہ تھوڑی ہے میں ابھی کسی کو آواز دے کر ثالث بنا لیتا ہوں۔وہیں قریب سے گزرتے ہوئے ایک شخص کو طوطے نے آواز دی کہ ہمارا اس بات پر جھکڑا ہے تو فیصلہ سنا دو،بس وہ شخص آیا طوطے کے تمام دلائل سنے پھر الو کی باتیں سنیں۔طوطی کی طرف دیکھا۔پھر ان تینوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ تم نے ہمیں منصفی کیلئے چنا ہے ہم منصف ہیں اس لیے جوفیصلہ بھی کریں گے وہ حق پر کریں گے کسی کے ساتھ حق تلفی نہیں ہونے دیں گے تمام دلائل اور باتیں سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ طوطی الو کی بیوی ہے اور طوطا جھوٹ بول رہاہے اس لیے جھوٹے کو شہر بدر کیا جاتا ہے اور اسے ناحق الو کو ستانے کی سزا میں اتنے اناج کا جرمانہ بھی کیا جاتا ہے جو وہ ادا کرئے گا۔یہ فیصلہ سنا کروہ شخص چلا گیا ،طوطا دم بخود رہ گیا کہ یہ کیا ہوا میری بیوی جو میری طرح کی ہے الو کی بیوی بنا دی گئی۔فیصلہ بھی اس نے دیا جسے میں نے خود منصفی کیلئے چنا تھا۔اب میری بات کون سنے گا اور وہ ناامید ہوکر اکیلا ہی اٹرنے لگا تو الو نے اسے پکڑ کو بیٹھا لیا اور کہنے لگا کہ یہ تمہاری ہی بیوی ہے تم اسے ساتھ لے جاؤ۔

یہ سب تم کو سمجھانے کیلئے میں نے کیا تھا،تمہاری پہلے دن والی باتین سب میں نے سن لیں تھیں جس میں تم نے کہا تھا کہ اس بستی کو اجاڑنے میں میرا الو کا ہاتھ ہے اب تم سمجھو گے کہ اس میں میر اہاتھ نہیں ہے یاد رکھنا کہ جس بستی جس گاؤں جس ملک کہ منصف اس قسم کے فیصلے کرنے لگیں کہ کسی کی بیوی کسی کی جگہ کسی کا حق اسے دینے کی بجائے اسے ہی مجرم بنا دیں تو وہ بستیاں وہ ملک اجڑجاتے ہیں۔جہاں پر منصف ظالم کو مظلوم ،اور مظلوم کو ظالم بنا دیں وہاں اطمینان اور سکون کیسے ہوسکتا ہے۔جہاں منصف ہی حق کا ساتھ نہ دیں وہاں مظلوم کس سے حق مانگے گا۔جہاں اپنا حق مانگنا ہی جرم ہو وہاں کیسے کوئی رہ سکتا ہے ؟ اس بستی کو میں نے نہیں بلکہ اس کو منصفوں نے اجاڑا ہے۔

Law

Law

اس بستی میں جو بھی حق مانگنے کیلئے منصفوں کے پاس گیا اسے مجرم بنا کر جیل میں ڈال دیا گیا اور ساتھ تقاضا کیا گیا کہ ہمارا احترام کرو نہیں تو ایک اور ہماری توئین کے جرم میں تمہیں مزید جیلوں میں رہنا پڑئے گا ۔یہی سبب تھا کہ اس بستی کے رہنے والے یہاں سے جانے لگے اور یہ بستی ویران ہوگئی ۔اب یہاں نہ مظلوم ہیں نہ ظالم ،یہاں اب بس چند اس شخص جیسے غلط منصف بچے ہیں جو عنقریب اپنے انجام کو پہنچائیں گے۔یہ کہ کر الو نے طوطااور طوطی سے کہا کہ تم بھی جاؤاور میں بھی چلتا ہوں کسی اور بستی کی طرف جہاں عدل وانصاف ہو،جہاں اطمینان ہو،جہاں سکون ہو،جہاں منصف عدل کے مطابق فیصلے کریں ناکہ بادشاہوں کہ زرخرید غلام بن کریا خود بادشاہ گر بن کر۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کو ہی دیکھ لیں امریکہ کی نام نہاد عدالتوں نے کیا فیصلہ دیا ہے ایک نہتی اور کمزور عورت پر اتنے جرم ڈال کر اسے تاحیات پابند سلاسل رکھنے کا حکم۔ججز کا فیصلہ ہے منصفوں کا فیصلہ ہے لیکن عوام نہیں مان رہی ،کیونکہ ان فیصلوں کے پیچھے حکومتیں کارآمد ہوتی ہیں۔حکومتیں ججز سے ایسے فیصلے کرواتی ہیں کہ ججز ،قانون بدنام ہوتا ہے۔

ججز بھی یہ نہیں سوچتے کہ حکومتیں آنی جانی ہیں یہ قانون یہ ادارئے باقی رہیں گے ایسے کسی گیم پلان کا حصہ نہ بنیں کہ آنے والے دنوں میں ہماری طرف انگلیاں اٹھنے لگیں۔ جہاں پر بھی دنیا میں عدالتوں کو ذریعے غلط فیصلے کروائے گے وہاں پر ان فیصلوں کو ان ججز کو پذیرائی نہیں ملی۔ وہ ججز بھی محترم نہیں رہے جنہوں نے بادشاہ کے کہنے پر مظلوم کو ظالم بنادیا۔سب سے بڑا ظلم تو یہ ہے کہ اب آپ ظالم کو ظالم بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ کوئی نہ کوئی دفعہ یاتوہین کا قانون لگا کر عوام کو مزید جیلوں میں ڈالنے سے ڈرایاجاتا ہے ۔ یواین او کو دیکھ لیں کشمیریوں کے متعلق کچھ نہیں کر رہی جہاں پر امریکہ کا فائدہ ہووہاں پر ایک دم حرکت میں آجاتی ہے ،دنیا کہ کسی حکمران کو یواین او کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے کہ جرات نہیں کہ تم امریکہ کی زرخرید غلام ہو تماری قراردادیں صرف امریکہ اور یورپی ممالک کی خوشنودی کیلئے ہوتی ہیں۔

اگر کوئی مسلمان حکمران ایساکرنے کا بھی سوچے گا تو باقی ممالک اس کا ساتھ نہیں دیں گے امریکہ ویٹو پاور استعمال کرئے گا اس ملک کی یواین او کی رکنیت معطل کرکہ اس پر حملے کی تیاری شروع ہوجائے گی۔اب کہاں جائیں غریب عوام،غریب ممالک کے حکمران منصفی کیلئے ،کس عدالت سے رجوع کریں جہاں حق کے فیصلے ہوں جہاں پر کوئی یزید ،باطل کے خلاف ،ظلم کے خلاف،آمریت کے خلاف،اٹھنے والے حسین کو فتوی دینے والے زرخرید منصفوں کے ذریعے قتل نہ کروا سکے۔جہاں منصف یزیدوں کو خوش کرنے کیلئے قتل حسین علیہ السلام پر مہرنہ لگاتے ہوں۔منصف اپنے فیصلوں سے محترم ہوتے ہیں حق کے فیصلہ عدل وانصاف کیساتھ ہوں توعوام میں بھی پذیرائی ملتی ہے نہیں توفیصلہ تو ہو جاتا ہے اس پر عمل بھی ہو جاتا ہے لیکن تاریخ غلط فیصلوں کو اور ان زرخرید منصفوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔جیسا کہ ہمارے ملک کے عوامی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ ہوا۔

آج تیس سال بعد بھی عوام یہی کہتی ہے کہ وہ عدالتی قتل تھا اب صرف پیپلزپارٹی نہیں بلکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پرمتفق ہوچکی ہیں کہ اس وقت کی عدلیہ نے ایک ڈکٹیٹر کے کہنے پر ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا دی۔سوچئے کہ معزز ججز کا فیصلہ ہے اعلی عدلیہ کا فیصلہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے قتل کروایا جس کے نتیجے میں اسے پھانسی کی سزا دی جا رہی ہے لیکن عوام آج بھی بھٹو کو بے قصور مانتی ہے تاریخ میں بھٹو کا نام زندہ ہے اگر زندہ نہیں ہے تو صرف ان ججز کا جنہوں نے آقا کو خوش کرنے کیلئے یہ اقدام اٹھایا،اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ججز کو تاریخ میں زندہ رہنے کیلئے کچھ ایسے فیصلے حق کے کرنے پڑیں گے کہ وہ عوام میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔

آج عدلیہ آزاد ہے بالکل آزاد اس لیے عوام منتظر ہے ان فیصلوں کی جو تاریخ ساز ہوں جس سے قوم بیدار ہو جس سے عوام مطمئن ہو،جس سے عوام میں شعور آئے کہ وہ جس کے پاس جا رہے ہیں وہ منصف ہے ناکہ زرخرید غلام۔

Dr Sarfraz Haider

Dr Sarfraz Haider

تحریر : ڈاکٹر سرفراز حیدر برلاس