کہیں بھی کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے… ؟

Resolution

Resolution

 

دنیا میں اِنقلاب کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی ملک و معاشرے اور تہذیب میں سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ظالموں اور فاسق و فاجر و ںنے غریبوں کو بولنے کی اجازت نہیں دی ہے توغریبوں کی آوازیں بلند ہوئیں ہیں اور جب اِن ہی طاقتور طبقوں نے اِن کی اِن آوازوں کو بھی دبانے کی ڈھانی تو پھر غریبوں کی تلواریں بلند ہوئیں اور جب اِن کی تلواریں بلند ہوئیں تو دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ تلواریں اپنا استحصال کرنے والوں کی گردنیں اُتار کر ہی میانوں میں واپس گئیں ہیں اور ایک ایسا انقلاب آیا ہے کہ جو آج بھی استحصالی طبقوں کے لئے مشعلِ راہ ہے آج میرے ملک کے سرمایہ دار اور جاگیردار بھی غریبوں کو بولنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اور اِن کی آوازیں اِسی طرح دبا رہے ہیں یہ جیسے ماضی میں دبائی گئیں تھیں خدشہ ہے کہ اِن طاقتور طبقوں کے خلاف غریبوں کو اپنے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر کہیں تلواریں نہ نکالنی پڑ جائیں اور اِن تلواروں سے وہی کام دوبارہ لینا پڑ جائے جیسا یہ اپنا استحصال کرنے والوں کے خلاف پہلے کر چکے ہیں اَب دیکھنا یہ ہے کہ میرے ملک کے غریب کب اِس جانب متوجہ ہوتے ہیں اور اپنا استحصال کرنے والوں سے انقلاب کے نام پر نبرد آزما ہونے کا سامان کرتے ہیں میرا کام تو بس اِنہیں جھنجھوڑنا تھا سو میں نے اپنا کام کر دیا اَب دیکھنا یہ ہے کہ میرے ملک کے غریب اِنقلاب کے لئے کب بیدار ہوتے ہیں۔

بہرحال..! اِس سے بھی شاید کسی کو انکار نہیں ہو کہ کہیں بھی کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے جیسا کہ آج ایک امریکی میگزین ”ٹائم ” نے بڑے معنی خیزانداز سے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جس طرح آج امریکا کے ڈرون طیارے بیرون ملک دشمنوں کو نشانہ بنانے اور جاسوسی کرنے کے کام آتے ہیں ، اگر یہ جدید جنگی ٹیکنالوجی سے مزین امریکی طیارے امریکی سرزمین پر بے لگام ہو گئے تو پھر کیا ہو گا…؟ میگزین نے انکشاف کیا ہے کہ جیساکہ امریکا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بڑے پیمانے پر ڈرون استعمال کیا جا رہا ہے ، اگرچہ اِس میگزین نے اپنے انکشاف میں اِس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ اگر شہریوں کو اِس کے استعمال کی اجازت ملی تو پھر پولیس اہلکار ، کسان ، بلڈرزحتیٰ کہ ہالی ووڈ والے بھی اِس جنگی مشین اور جدیدٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھائیں گے، لیکن اِس کے کیا اور کیسے خطرناک نتائج برآمدہوں گے..؟ اِس سے متعلق قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے سوائے اِس کے اگر امریکی شہریوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں ڈرون کا استعمال بڑھ گیا تو خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ، میگزین نے اِس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ کہنا بڑا مشکل ہے بلکہ غیر متوقع بھی ہے۔

U.S Drone

U.S Drone

جب غیر ممکن طورپر امریکامیں ڈرون کا استعمال کسی عام استعمال کی شئے کی طرح بڑھ جائے تویہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ڈرون سرحد پار منشیات کی اسمگلنگ کے کام آئے،یا پھر کسی بھی مشہور شخصیت (مردو عورت)کی تمیزکئے بغیر اِن کی برہنہ تصویر اُتارے یا پھرعام لوگوں کی جاسوسی کرے ، امریکی میگزین نے اپنے اِس انکشاف میں امریکا میں ڈرون کا استعمال بڑھ جانے کی صورت میں دنیا کے سامنے آئندہ کے امریکاکا منظربھی فاش کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جب آئی فون اور 50 ڈالرکے حامل کسی شخص کے پاس ایک چھوٹا سا ڈرون ہو گا اور جب امریکی انتظامیہ اپنے شہریوں کے دباؤ میں آکراپنے یہاں ڈرون کے استعمال اور حملوں کی اجازت دے دے گی جس سے اِس کی قانونی حیثیت بھی اِس وقت واضح ہوجائے گی،جب کوئی دوسراملک عالمی قوانین کے تحت اپنے دشمنوں کو امریکی سرزمین پر نشانہ بنانے کا مطالبہ کرے گا۔ اِس پر میرا خیال یہ ہے کہ امریکی میگزین کے سارے خدشات اور انکشافات اپنی جگہہ چاہئے جیسے بھی ہوں مگر اِ س میں کوئی شک نہیں ہے کہ اِس میگزین نے صرف یہ ایک بات ”جب کوئی دوسرا ملک عالمی قوانین کے تحت اپنے دشمنوں(جن میں امریکی انتظامیہ اور تھینک ٹیک والے شامل ہوںگے)کو امریکی سرزمین پر نشانہ بنانے کا مطالبہ کرے گا” اِسے کہنے کے لئے کئے خدشات کا اظہار کیا ہے ورنہ تو اِس امریکی میگزین ”ٹائم ” کے معنی خیزخدشات میں کوئی بھی ایسی بات نظر نہیں آرہی ہے جو قابلِ بحث ہو ماسوائے اِس کے کہ ” کہیں بھی کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے”۔

George Bush

George Bush

اُدھر اُمتِ مسلمہ کے خون کے پیاسے اور اپنے شہریوں کے لئے دنیا کو جہنم بنانے والے سابق امریکی صدرجارج ڈبلیو بش اِن دنوں اپنے چہیتے 12سالہ بارنی نامی کُتے کے مرنے پر غم سے نِڈھال ہیں کیوں کہ اِن کا ایک چہیتا کتا کیا مر گیا ہے گویا کہ اِن کے لئے دنیا ہی اُجڑ گئی ہے آج کل اِن کا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا ہے، راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں، اِن سے اِن دنوں اپنے کُتے کے مرنے کے غم میں نہ کچھ کھایا جا رہا ہے اور نہ کچھ پیا جا رہا ہے، کپڑے بدلنے اور نہانا دھونا بھی بھول گئے ہیں یعنی یہ اپنے ایک کُتے کے مر جانے کے غم میں دنیا سے کنارہ کشی اختیار کئے ہوئے ہیں اِن کا دل دنیا سے اُچاٹ ہو گیا ہے ، اِن کے نزدیک تو بس دنیا کے سارے غمو ں سے زیادہ غم اِن کے کُتے کے مرنے کا ہے ، آج دنیا کے مسلمانوں کو اپنے ظالمانہ اور اِنسانیت سوز فیصلوں سے مارنے والے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو ٹیرئیر نسل کے اپنے12سالہ چہیتے کتے بارنی کے مرنے کے بعد شاید پہلی بار اِس بات کا احساس ہواہے کہ دنیامیں ہر چیزممکن ہے کوئی یہ نہ سمجھے کہ کچھ بھی ممکن نہیں ہے، یہ اِنسان کی کم عقلی ہے کہ وہ ہمیشہ یہ سمجھتا رہتا ہے کہ جو کام اِس نے کئے ، اور کر رہا ہے اور مستقبل میں کرے گا۔

اِس میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ، کوئی طاقت ایسی ضرور ہے جو ہر ناممکن کو ممکن اور ہر ممکن کو ناممکن بنا سکتی ہے بش کو افسوس اِس بات کا ہے ، میں نے اپنے حکم اور فیصلوں سے دنیا کے انسانوں کو مارنے اور جنگیں برپا کرنے کے اعلانات کئے میں نے اپنے دورمیں خود کو کیا کچھ سمجھ لیا تھا مگرآج جب میرا چہیتا کُتا بارنی بارہ سال بعد مجھے چھوڑ کر مر گیا اِسی طرح میں بھی اپنی طبی موت یا کسی انتقامی کی کارروائی کا نشانہ بن کر سفاکی سے ہلاک ہو جاؤں گا ، جِسے میں ہمیشہ ناممکن سمجھتا رہا ہوں اَب یہ سب مجھے ممکن نظرآنے لگا ہے اور آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح بش کا چہیتا کُتا بارنی ، کُتے کی موت مار گیا ہے آنے والے وقتوں میں اگر امریکیوں نے دنیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم سے کنارہ کشی اختیار نہ کی اور تو ممکن ہے کہ امریکا میں ایسی تباہی پھیل جائے جس کا گمان بھی نہ ہو۔

محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com