کیوں بلندی پا کے ہستی میں اتر جاتا ہوں میں

top order to down

top order to down

کیوں بلندی پا کے ہستی میں اتر جاتا ہوں میں
کس لیے احساس کی حد سے گزر جاتا ہوں میں

ڈوب جائے گی تو اپنے آنسوئوں میں سوچ لے
چھوڑ کے اے زندگی تجھ کو اگر جاتا ہوں میں

زخم بے انداز ہیں پھر بھی ٹھہرِ شہرِ طلب
آنے والی کل کی خاطر پھر سنور جاتا ہوں میں

کھنچتا ہوں سانس میں سنسان راتوں میں خلش
اور دن کے درد میں ہر سو بکھر جاتا ہوں میں

چیختے لمحوں کے آنسو اپنے دامن میں لیے
مجھ پہ یہ الزام ہے کہ اپنے گھر جاتا ہوں میں

کون جانے کون سی منزل بنے منزل مری
آتا ہوں جانے کدھر سے اور کدھر جاتا ہوں میں

بھید لے کے رات کی تاریکیوں کے اے قمر
چپکے چپکے دن کی بستی سے گزر جاتا ہوں میں

سید ارشاد قمر