گزری سیاست اور آج کی سیاست

arif rasheed

arif rasheed

اگر آج ہم گزری ہوئی سیاست پر ایک نظر ڈالیں تو ایک نام آج بہت یاد آتا ہے جس نے سیاست میں اپنا سب کچھ گوا دیا مگر سیاست کو سیاست سمجھ کر کیا بڑے بڑے سیاست دا ن ان کو بابائے جمہوریت کہتے تھے اور کچھ بابائے سیاست بھی کہتے تھے بابائے جمہوریت کے پاس کون سا ایسا سیاست دان تھا جو انکے پاس نہیں جاتا تھا بڑے بڑے سیاست دان بھی ان کے پاس چل کرجاتے اور مسئلے کا حل پوچھتے آج اگر ہم انکو سیاست کی یونیورسٹی کہیں تو بُرا نہ ہوگا بابائے جمہوریت کے نام حکومتوں کو ڈر لگا رہتا تھا کہ کب ہماری حکومت کا تختہ الٹ دیں آپ سب سیاست دانوں کو اکٹھا کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔

Nawabzada Nasrullah

Nawabzada Nasrullah

آپ کی ایک آواز پر سب کی سب جماعتیں ایک پلیٹ فارم اکٹھے ہوجاتیں بابائے جمہوریت سب کو ایک میز پر لے آتے اور جس حکومت کیخلاف بھی کچھ کرنا ہوتا تو وہ سب سے آگے آگے ہوتے ،آپ کے اپنے زمانے میں جیلیں بھی کاٹیں اس وقت کی سیاست میں اور اب کی سیاست میںبہت فرق ہے نواب زادہ نصراللہ خان کو اس لیئے بابائے جمہوریت کہا جاتا تھا کہ انہوںنے جمہوریت کیلئے بہت قربانیاں دیں انہوںنے اپنی ایک پارٹی بھی بنائی جس کا نام جمہوری وطن پارٹی کے نام سے تھااب کے سیاست دان کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کو مضبوط کررہے ہیں لیکن ملکی حالات جو بتا رہے ہیں اس سے جمہوریت کمزور ہوتی جارہی ہے کبھی ہم عدلیہ کیخلاف اور کبھی موجودہ حکومت کیخلاف ایسی بیان بازی کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیںحالانکہ جمہوریت کا نام یہ ہے کہ سب سیاستدان ایک میز پر بیٹھ کر ملک کے بارے میںسوچیں اور اس کی بہتری کیلئے کام کریں اس ملک کی عوام کی بہتری کیلئے کیا ہے ؟

dr arslan

dr arslan

ہم نے کبھی نہیں سوچا اس ملک میں نہ تو عوام کیلئے کوئی کام ہورہا ہے اور نہ ہی سیاست کی جارہی ہے اب اگر ڈاکٹر ارسلان کے کیس کو دیکھا جائے تو ! اس بات میں کیا حقیقت ہے اس کے بارے میں ابھی کوئی نہیں جانتا لیکن کوئی کہتا ہے کہ اس نے کرپشن کی اور کوئی کہتا ہے کہ اس نے کرپشن نہیں کی لیکن ملک ریاض یہ سب کیوں کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر ارسلان مجھے بلیک میل کرتا تھا کوئی پوچھے ملک ریاض سے کہ آپ نے ڈاکٹر ارسلان پر اتنا خرچہ کیوںکیا ؟ہمارے ملک میں ٹھیکیدار کے پاس سب سیاستدان جاتے ہیںاور سب کے سب اس کے دسترخوان کو پسند کرتے ہیں تو اس میںکوئی خاص بات ہوگی کیونکہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا ۔سیاست پریشان ہوتے تھے تو دوسرے سیاستدان کیخلاف جا کر اس مسئلے کا حل پوچھتے تھے چاہیے وہ اسمبلی کے فورم پر ایک دوسرے کیخلاف بھی بات کرتے تھے مگر کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ ہمارے فیصلے کوئی اور کرے اگر ملک ریاض کے پاس کوئی ٹھوس ثبو ت ہے تو وہ پیش کر ے اگر نہیں ہے تو وہ کسی کو بدنام نہ کرے چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس ہونے کیساتھ ساتھ ایک باپ بھی ہیں اور اس باپ پر یااس کے گھر والوںپر اس وقت کیا گزررہی ہوگی یہ جاننے کے بعد کہ جو ڈاکٹر ارسلان نے کیا وہ سچ ہے یاجھوٹ !ہم نے جو پڑھا یا سُنا اس میں کہیں بھی چیف جسٹس کا نام تو نہیں آتا اگر کرپشن بیٹے نے کی ہے تو سزا بھی اس کو دی جائے کوئی باپ اپنی اولاد کو نہیں کہتا کہ تم کرپشن کرو جیسا کہ وزیراعظم کے دونوں بیٹوں کا نام عبداالقادر گیلانی اور موسیٰ گیلانی کا نام بھی کرپشن میں شامل کیا جارہا ہے ایسے ہی چوہدری پرویز الہیٰ کے بیٹے کا نام بھی کرپشن میں لیا جارہا ہے جو کہ چوہدر ی مونس الہیٰ نے کرپشن کی یا نہیں ؟

iftikhar chaudhry

iftikhar chaudhry

ایسے ہی ڈاکٹر ارسلان بھی کرپشن کی لسٹ میں شامل ہوگئے ہم زخموں پر نمک تو لگاتے ہیں مگر مرہم نہیں رکھتے چیف جسٹس چوہدری افتخار انصاف ،عدل اور اصولوں کے نہایت ہی سخت گیر آدمی ہیں اگر چیف جسٹس چوہدری افتخار نے کرپشن کرنی ہوتی تو جنرل مشرف جیسے آدمی کے سامنے جھک جاتے اور اپنے ذاتی مفاد حاصل کرلیتے لیکن انہوں نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ملا تو نہیں مگر ایک بات میرے علم میں ہے اگر ڈاکٹر ارسلان اس کیس میں کہیں بھی مجرم ثابت ہوگئے تو چیف جسٹس بن کر کبھی بھی وہ اپنے بیٹے کو معاف نہیں کرینگے اور نہ ہی اپنے بیٹے کیلئے کسی دوسرے جج کو سفارش کریں گے ا ب دیکھنا یہ ہوگا کہ ہماری سیاسی جماعتیں اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس کو کن لفظوں میں یاد کرتی ہے اور چیف جسٹس چوہدری افتخار کا کتنا ساتھ دیتی ہے جب سے ڈاکٹر ارسلان کا کیس سامنے آیا تو ایسا لگتا ہے پورے ملک میں خاموشی چھا گئی ہو اب تو کوئی کسی کیخلاف بیان بازی بھی نہیں کررہا اور نہ ہی ایک دوسرے کیخلاف کھلم کھلا بات کررہا ہے اس وقت سب کے سب سیاستدان خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں کچھ سیاستدان اپنی اولاد سے یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کہیں تمہار تعلق ملک ریاض سے تو نہیں کہیں تم اس کے دستر خوان پر تو نہیں گئے اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ”اس بات کا فیصلہ تو وقت کرے گا۔

تحریر: مرزا عارف رشید