ہجر کی رات کسی طور گزاری جائے

ہجر کی رات کسی طور گزاری جائے
اس کی تصویر نگاہوں میں اتاری جائے

تو نے جس زلف کو چھیڑا ہے پریشانی میں
میں پریشاں ہوں کہ وہ کیسے سنواری جائے

چھوکے گزری ہے تیری یاد کی خوشبو ایسے
جیسے جنگل میں کوئی راج  کماری  جائے

رات کا خواب پس جاں ہے کسی خواہش میں
نیند ٹوٹے تو کہیں جا  کے خماری جائے

پھر سے کوئی روانی ،کہ طلسم ،کچھ تو ہو
موج کی شکل کہیں سے تو ابھاری جائے

وہ جو اک شام غریباں کا  جگائے  منظر
لب فرات وہی پیاس  پکاری جائے

بس میرے حال پہ  ہو جائے کرم سا کوئی
بس اسی کہ نام یہ شام  سنواری  جائے

تحریر : انور جمال فاروقی اولڈھم یو کے