ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ

Couple Man Woman

Couple Man Woman

ہر قدم پر نت نئےسانچےمیںڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ

کسلیے کیجیے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ

کتنے سادہ دل ہیں، اب بھی سن کے آواز جرس
پیش و پس سے بےخبرگھرسےنکل جاتےہیں لوگ

اپنے سائے سائے سر نیوڑھائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ

شمع کے مانند، اہل انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ

شاعر ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو، سنتے ہیں، سنبھل جاتے ہیں لوگ

حمایت علی شاعر