ہر کوئی اپنی عدالت لگا رہا ہے کیوں ؟

Court

Court

کچھ سال پہلے ایک خبر نے سب کو چونکا دیا تھا کہ کراچی میں دو آدمیوں کو عین سڑک کے درمیان پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔ سب پریشان تھے کہ یہ کیا ہوا ؟ کیوں ہوا ، کیسے ہوا ؟ تفتیش کرنے پر بتایا گیا کہ وہ دو آدمی ڈاکو تھے اور انہیں محلے والوں نے ڈکیتی کے دوران پکڑا اور اسے مارتے مارتے چوراہے پر لے آئے۔ تاکہ پولیس کے حوالے انہیں کیا جا سکے لیکن اتنے میں کچھ لوگ بولے کہ کیوں انہیں پولیس کہ حوالے کرتے ہو ، پولیس تو خود ان کے پیچھے ہوتی ہے چند روپے لے کر انہیں چھوڑ دے گی اور یہ ہمیں سے بدلہ لینے پھر آجائیں گے ، عدالتیں بھی انہیں سزا نہیں دیں گی کیونکہ ہوئی گواہ ہی نہیں ہو گا۔

اس لیے انہیں اسی جگہ پر نشان عبرت بنا دو بس پھر کیا تھا ایک دم ایک نوجوان گیا اور پٹرول موٹر سائیکل سے نکال کر لے آیا اور آنا فانا ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں ان دو آدمیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ میڈیا چیخا چلایا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کسی پر مقدمہ نہ بنا کیونکہ کہ ہزاروں لوگ اس عمل میں شریک تھے۔ اسی طرح کا دوسرا واقعہ پھر سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے ساتھ ہوا جو سب کو اچھی طرح یاد ہے۔ مقدمے کا کچھ نہیں ابھی تک بنا کچھ کے نزدیک وہ لڑکے بے قصور تھے اور کچھ کے نزدیک گناہگار تھے۔ لیکن اس بات سے قطع نظر فیصلہ سڑک پر کیا گیا جو میڈیا کئی دن تک چینلز پر دکھاتا رہا۔ ابھی ایک ماہ قبل بلوچستان میں یہی ہوا کہ پانچ غیرملکیوں کو پولیس اور دوسرے ادارئے کے لوگوں نے مل کر مارا کیا بنا اسکا ؟ کچھ نہیں۔

فیصلہ سڑک پر کیا گیا اور ابھی کچھ دن پہلے کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ایک نوجوان سرفراز شاہ کو مارا گیا ۔میڈیا نے خوب اس مرڈر کی فلم کو عوام تک پہنچایا ، مقدمہ بھی درج ہواسپریم کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لے لیا لیکن ہو گا کیا وہی جو پہلے ہوتا آرہا ہے کہ مقدمہ ،کمیٹی اور بس لوگ اور میڈیا بھول جائے گا کیونکہ اتنے میں ان کے پاس باتیں کرنے کیلئے اس جیسا کوئی اور واقعہ آچکا ہو گا۔ آپ نے ان سب واقعات میں ایک چیز کو محسوس کیا ہوگا وہ یہ کہ تمام واقعات میں سڑک پر فیصلہ ہوتا نظر آیا ہے۔ ایسا کیوں ہو گیا ہے؟ کہ عوام رینجرز ، پولیس یہ سب فیصلہ سڑک پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اب مقدمے عدالت تک لے جانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ اس طرف بھی سوچنا چاہیے۔ ابھی موجودہ واقعے ہی کو لے لیں کہ رینجرز نے ایک نہتے شخص کو مار دیا ،تمام میڈیا رینجرز کے خلاف ہو گیا کہ رینجرز کیا کر رہی ہے۔

Rangers

Rangers

لیکن کبھی آپ نے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ رینجرز کی یہ سوچ کیوں ہو گئی ہے ؟ جن پانچ افراد نے اس لڑکے کو مارا ہے وہ پاگل تونہیں ہیں ، ان کی ذاتی دشمنی تو نہیں تھی اس لڑکے کے ساتھ؟ رینجرز کی کوئی چیز بھی اس نے نہیں چرائی تھی، پھر کیا وجہ بنی کہ رینجرز نے ایک نہتے آدمی کو مار دیا ؟ سوچئے ، غور کریں کسی ماہر نفسیات کو بلایئے اور اس سے پوچھئے کہ یہ کیا ہواعوام ، پولیس ، رینجرز کے دماغوں کو ہو کیا گیا ہے کہ وہ سب فیصلے سڑک پر اور اون دا سپاٹ کر رہے ہیں ، ایک رائے یہ ہے کہ پولیس اور رینجرز اپنی حدوں سے آگے نکل گئے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی روکنے والا نہیں اپنے ادارئے کے سربراہ ان کے پیچھے ہوتے ہیں جن کی آشیرباد سے یہ سب ہوتا ہے۔ اپنے سیاسی دشمنوں کو پولیس مقابلے میں مارنے کا رحجان تو بہت پرانا ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ یہ محض پولیس اور رینجرز کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے جس کے نتیجے میں ان انتہائی اہم اداروں پر سے قوم کا اعتماد اٹھ جائے اور وہ ان کے دشمن ہو جائیں جیسا کہ اس واقعے میں ہو رہاہے کہ رینجرز کو بدنام کیا جا رہا ہے ایک ادارئے کی میڈیا پر انتہائی بے رحمی سے تذلیل ہو رہی ہے ہر کوئی رینجرز کو برا بھلا کہے جا رہا ہے ، حالانکہ یہ پورے کراچی کا ایک واقعہ ہے جس میں یہ سب ہوا یہ لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہی رینجرز کے ہونے کی وجہ سے ہی تمام کراچی سکون کی نیند سوتا ہے ورنہ وہاں پر تو وہ حالات ہو گئے تھے کہ رات کو تو کیا دن کو بھی باہر نکالنا ناممکن تھا۔

انہی رینجرز کے ہوتے ہوئے وہاں پر جرائم پر قابو پایا گیا۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک آدمی کے عمل کی ذمہ داری صرف اسی آدمی کی ہے جس نے وہ عمل کیا ہے ناکہ پورے ادارئے کی۔ مثال کے طور پر آرمی کے چیفس ایوب خان ، یحیی خان ، ضیاءالحق اور مشرف نے جو ملک پر قبصہ کیا وہ ان کا ذاتی فعل تھا اور ان کے اس فعل میں ان کے کچھ دوست بھی شامل تھے نا کہ تمام آرمی۔ان چاروں نے جو ملک کو نقصان پہنچایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن ان کے ذاتی فعلوں کی بنا پر آپ تمام آرمی کو گالیاں دیں برا بھلا کہیں تو یہ سرا سر غلط ہے۔ کیونکہ اگر یہ آرمی نہ ہو تو آپ ایک دن بھی سکون سے نہ رہ سکیں بلکہ کسی نہ کسی دوسری قوم کے غلام بن جائیں۔ یہ جو ہم آزادی کے ساتھ اپنے ملک میں رہتے ہیں صرف آرمی ہی کی وجہ سے ممکن ہے۔ ذاتی فعل کیا ہوتا ہے جیسے ہمارے معزز ادارئے یعنی عدالت اعظمی ہے اس میں بھی تو کچھ لوگ ایسے تاریخ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اپنی پاورز کو استعمال کیا۔

PPP

PPP

کسی وقت میں صرف پیپلز پارٹی کہتی تھی کہ مولوی مشتاق نے بھٹو کو عدالت کے ذریعے قتل کیا لیکن اب تو پورے ملک کے عوام اور تمام سیاستدان چاہے گورنمنٹ کے ہوں یا اپوزیشن کے وہ بھی مان گئے ہیں کہ بھٹو کاقتل عدالتی قتل تھا۔ تو کیا اس بنا پر عوام کو اعتماد عدالت اعظمی پر نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے ایک جج نے بھٹو کو عدالت کے ذریعے قتل کیا تھا؟نہیں ایسا نہیں ہے پیپلز پارٹی کے لوگوں نے آج تک یہ نہیں کہا کہ عدالتی ادارئے نے بھٹو کو قتل کیا ہے بلکہ یہی کہا کہ جنرل ضیاء نے مولوی مشتاق کے ذریعے بھٹو کو قتل کیا۔ اگر ایک ادارئے کی عزت ہی نہ کی جائے گی تو وہ ادارہ کیا کام کرئے گا۔ اس لیے ہمیں جن لوگوں نے بھی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے ان برا بھلا کہنا چاہیے ناکہ اداروں کی تذلیل کرنے لگیں۔

اب مارا سرفراز شاہ کو چار یا پانچ لوگوں نے ہے اور ہم تقاضا کر رہے کہ کہ آئی جی ، ڈی جی رینجرز استعفی دیں ، بھئی کیوں ؟ کیا آئی جی نے یا ڈی جی رینجرز نے اپنے سٹاف کو کہا ہے کہ وہ لوگوں کو سڑکوں پر ماریں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے وہ سربراہ ہیں اپنے اداروں کے وہ ایسا کیوں کریں گے جس کی بنا پر ان کے محکوں کی بدنامی ہو۔اس لیے آپ انہیں پکڑیں انہیں برا بھلا کہیں جنہیں نے یہ فعل کیا ہے ناکہ پورے ادارئے کو اب ہم ڈاکٹر ہونے کی بنا پر ایک اندازہ لگاتے ہیں جو صیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی کیونکہ ہم لوگوں میں رہتے ہیں ان کو سنتے ہیں تو ایک رائے یہ بھی ہے کہ پولیس ، رینجرز یا عوام کا اعتماد عدالتوں پر سے اٹھ گیا ہے کیونکہ مقدمے کے اتنے لمبے پراسس کو یہ اب ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ ہر ایک کو جلدی ہے انصاف کی ،جس کے پاس اختیارات ہیں وہ کہتا ہے کہ میں خود ہی جج بن کر یہاں پر انصاف کردوں،جیسا کہ پہلے دو واقعات میں ہوا کہ عوام نے خود سڑک پر ردعمل کیا اور دونوں جگہوں پر عوام کوملوث صرف ایک جملے نے کیا کہ یہ ڈاکو ہیں انہیں اگر پولیس کے حوالے کروگے تو یہ عدالتوں میں سے آسانی سے نکل جائیں گے۔

اس لیے انہیں عبرت کا نشان بنا دو بس پھر یہی ہوا جو ہونا تھا عوام نے آگ لگا دی یا ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کردیا۔ سوچیں کیوں ؟ اس لیے کہ عوام کا پولیس اور عدالتی نظام پر اعتماد ختم ہو گیا۔ کیا ابھی کسی گاؤں شہر میں ایسا واقعہ ہو تو کیا عوام اسے مارے گی یا پولیس کے حوالے کرے گی ،برا نالگے توبات کہوں کہ عوام مارے گی۔ کیونکہ عوام ڈپریشن کا شکار ہو چکی ہے اداروں پر سے اعتماد ختم ہوگیا ہے اب لوگ اپنے فیصلے اپنے ہاتھوں سے کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جیسا ابھی کچھ دن پہلے سیشن جج کی موجودگی میں عدالت کے اندر دوبھائیوں کا مار دیا گیا کیوں؟ وہ ضمانت لینے آئے تھے دوسری پارٹی کو یہ منظور نہیں تھا کہ وہ ضمانت پر جائیں اس لیے فیصلہ گولی کے ذریعے کیا گیا ناکہ عدالت ذریعے کروایا گیا۔

ہمارے ایک جاننے والے مسعود صاحب ہیں۔ تین سال سے ان کا مقدمہ عدالت میں لگا ہوا ہے مقدمہ کیا ہے مکان کے قبضے کا ، مسعود کا یہ دعوی ہے کہ اس نے مکان کا بیعانہ دے دیا ہے اس لیے وہ مکان اس کا ہی ہے باقی رقم لے کر مالک وہ مکان میرے حوالے کردے۔ تین سال سے اس کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ مکان کے مالک نے مکان میں کچھ ایلٹریشن کروانی شروع کر دی تو مسعود وہاں چلا گیا کہ اس کی تو مقدمہ عدالت میں ہے آپ اس کو نہ چھیڑو۔ بس کیا تھا تو تو میں میں ہوئی بات ہاتھا پائی تک پہنچی اور نوبت یہاں تک آئی کہ انہوں نے مسعود کو اچھا خاصا مارا بس پھر کیا تھا مسعود نے پستول نکالی اور فائر کھول دیا ،اب یہاں قسمت کہیں یا خداکی کرنی کہ جن کے ساتھ لڑائی ہو رہی تھے وہ بچ گئے اور دو نوجوانوں کو موقعہ پر گولی لگی ایک تو وہیں دم توڑ گیا دوسرا زخمی ہسپتال میں پڑا ہے۔ یہ کیوں ہوا ؟ جلد بازی کی بنا پر ؟ یا غصے پر قابو نہ پانے کی بنا پر ؟ ایک رائے یہ بھی ہے کہ عدالتی نظام کی بنا پر۔ جہاں پر فیصلے ہونے کا نام ہی نہیں لیتے اور لوگ اپنے فیصلے یوں سڑکوں پر کرنے لگے ہیں۔

Lawyers Strike

Lawyers Strike

میرا آنا جانا عدالتوں میں لگا رہتاہے آپ یقین کرو کہ عوام کچہریوں میں کھڑے کھڑے ذہنی مریض ہوگئی ہے ۔خود سوچیں کہ ایک آدمی صبح آٹھ بجے سے پہلے کچہری پہنچاتا ہے ناجانے کتنی مصیبتوں کے بعد اور اسے کہاجاتا ہے کہ جج صاحب چھٹی پہ ہیں ، وکیل صاحب نہیں آئے،آج وکلا کی ہٹرتال ہے،تو اس کے دل ودماغ پر کیا بیتتی ہو گی۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ اس وقت وہ شخص کیا ہول فول بکتا ہے ،ادارئے کے خلاف ، ادارئے میں کام کرنے والے لوگوں کے خلاف،کچھ لوگ تو نفسیاتی مریض بن چکے ہیں ، ایک جملہ جو میں نے اکثر کچہری میں کھڑے لوگوں سے سنا ہے کہ عدالتوں سے بہتر ہے کہ اپنے فیصلے سڑکوں پر کر لیے جائیں۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟صرف عدالتوں کے اندر قائم مقدمات کو ان کے ٹائم فریم کے اندر ختم نہ کرنے کی وجہ سے خدارہ نظام کو ٹھیک کریں اور لوگوں جلد فیصلے سنائیں کہیں ایسا نا ہو کہ لوگ خود سڑکوں پر فیصلے کرنے کو ترجیح دینے لگیں۔

جس کی وجہ سے ملک میں اور زیادہ افراتفر یحی ہو اور حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں۔ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی طرح تمام ماتحت عدلیہ کہ جج صاحبان کو بھی چایئے کہ وہ مقدمے کا فیصلہ جلد سنائیں ،تاکہ فریق مطمئن ہو جائیں جتنی مقدمے میں دیر ہوتی ہے اتنا ہی دونوں فریق ایک دوسرے کے دشمن ہوتے جاتے ہیں اور دشمنی بڑھتی ہے۔ مدعی اور مدعلیہ دونوں پریشان کھڑے ہوتے ہیں ،ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے میں ذلیل ہو گیا ہوں اتنے سالوں سے مقدمے میں پھنسا ہوں،بس گالیوں سے ہاتھا پائی اور یا تو ایک قتل ،یازخمی ،دونوں پارٹیاں فوجداری مقدمے میں اندر ، عدالتوں پر ایک اور مقدمے کا بوجھ ، کیوں ؟ وہی دیر کرو گے تو بات بڑھے گی مقدمے بڑھیں گے ، ٹینشن بڑھے گی ، عوام نفسیاتی مریض بنے گی اور فیصلے سٹرکوں پر کرنے کو ترجیح دے گی۔

جیسا کہ ایک وزیر صاحب ٹی شومیں کہہ رہے تھے کہ رینجرز کیوں نے ماریں لوگوں کو ،رینجرز پولیس مجرموں کو پکڑ پکڑ کر عدالتوں کے حوالے کرتی ہے عدالتیں انہیں دوسرے دن چھوڑ دیتی ہیں اور وہ مجرم ہمارے منہ پر آکر ہمیں کو کہتے ہیں کہ کیا کر لیا تم نے ؟ بس اب کچھ رینجرز اور پولیس کے نوجوان بھی جذباتی ہو جاتے ہیں اور فیصلہ اون دا سپاٹ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی تھی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ کسی کو کوئی حق نہیں پہنچاتا کہ وہ خود جج بن کرفیصلے کرتا پھرے کہ کون مجرم ہے اور کون ظالم ،یہ فیصلے عدالتوں نے ہی کرنے ہیں۔ اس لیے ہماری چیف جسٹس سے گذارش ہے کہ وہ اپنی طرح ماتحت عدلیہ کو بھی حکم کریں کہ وہ فیصلے جلد ازجلد دیں تاکہ عوام عدالتوں پر اعتبار کرئے ناکہ اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کریں۔

تحریر : ڈاکٹر سرفراز حیدر برلاس

Dr Sarfraz Haider

Dr Sarfraz Haider