ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے

waiting in the rainy day

waiting in the rainy day

ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے !
وہ اک دیے سے نہ جانے کتنے دیے جلا کر چلا گیا ہے

ہم اس کی باتوں کی بارشوں میں ہر ایک موسم میں بھیگتے ہیں
وہ اپنی چاہت کے سارے منظر ہمیں دکھا کر چلا گیا ہے

اسی کے بارے میں حرف لکھے اسی پہ ہم نے غزل کہی
جو کجلی آنکھوں سے میرے دل میں نقب لگا کر چلا گیا ہے

متاع جاں بھی اسی پہ واری اسی کے دم سے ہے سانس جاری
مرے بدن میں جو خوشبوئوں کی ہوا بسا کا چلا گیا ہے

یہ فصل فکر و خیال اپنی اسی کے دم سے ہری بھری ہے
جو کچے کوٹھوں کے آنگنوں سے دھواں اٹھا کر چلا گیا ہے

ہماری آنکھوں میں رت جگے کی جھڑی لگی ہے اسی گھڑی سے
کہ جب سے کوئی غزال اپنی جھلک دکھا کر چلا گیا ہے

ہرن محبت کے سبزہ زاروں میں جانے کب چوکڑی بھریں گے
وہ جاتے جاتے سوال ایسا حسن اٹھا کر چلا گیا ہے

حسن رضوی