اب نظر آنا بھی اُس کا کہانی بن گیا

eye looking

eye looking

اب نظر آنا بھی اُس کا کہانی بن گیا
وہ زمیں کا رہنے والا آسمانی بن گیا

آج تک دل میں کوئی ٹھہرا نہیں اس کے بعد
یہ مکاں بھی جانے والے کی نشانی بن گیا

ڈوبتا ہی جا رہا ہے شہر میرے سامنے
شام کا بادل بلائے ناکہانی بن گیا

گونجتے ہیں لفظ خالی مدعا کے واسطے
ہاتھ سے لکھا بھی پیغامِ زبانی بن گیا

جس کے ہوتے غم گزرتا بھی نہ تھا نزدیک سے
دور جاتے ہی وہ میرے غم کا بانی بن گیا

کل تلک جس کو پگھلنے سے بچاتے تھے نسیم
وہ بدن اب شہر کی گلیوں کا پانی بن گیا
افتخار نسیم