5 سال بعد کا پاکستان

Election

Election

پاکستان کے حالیہ الیکشن میں مسلم لیگ نواز نے فتح کا جھنڈ ا گھاڑ دیا۔ نواز برادران قوم اور ریاست کے ہوشربا مسائل کو کس حد تک حل کرنے میں سرخرو ہونگے اسکا فیصلہ مستقبل کا مورخ کریگا۔ الیکشن کمپین وران سیاسی جماعتوں اور الیکڑانک میڈیا نے تبدیلی کے نام پر خوب گل غپاڑہ کیا۔ عوام کو ایک نقطہ باور کروایا گیا کہ الیکشن بیماریوں اور مسائل سے چھٹکارہ پانے کا واحد حل ہے۔ الیکشن کمیشن سے لیکر سپریم کورٹ تک اور سیاسی رہنماوں سے لیکر میڈیا نے ووٹرز کو ہر صورت میں ووٹ کاسٹ کرنے کی ترغیب تھی۔شائد یہی وجہ تھی کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 4 کروڑ 51 لاکھ افراد نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔

یوں ٹرن اور53.٪ کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گیا۔ سیاسی قیادت نے سادہ لوح پاکستانیوں کو درجنوں کلرز کے سبز باغ دکھائے۔ کسی نے کہا ہم نیا پاکستان تعمیر کریں گے کسی کا ارشاد تھا ہم پاکستان کو الہہ دین کے چراغ سے یورپ بنا کر دم لیں گے۔ کامیاب ریاست وہ ہوتی ہے جو عوام کے جان و مال کی حفاظت کرے۔ جو ازادی و خود مختیاری کی مبلغ ہو جس میں کوئی فریادی نہ ہو دور دور تک کوئی مظلوم دکھائی نہ دے جہاں کے حکمران اقتدار پرست نہ ہوں۔ عوام کو زندگی کی بنیادی ضروری سہولیات تعلیم صحت پانی روٹی کپڑا اور مکان میسر ہوں۔

قومی معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو جہاں قانون کی سربلندی ائین کی کارفرمانروائی اور انصاف کی اتھارٹی قائم ہو۔ اب یہاں چند نوکیلے سوال عقل و خرد پر دستک دینے لگتے ہیں۔ کیا الیکشن یا ووٹ کی قوت سے عوامی مسائل کا خاتمہ ممکن ہے؟ کیا نئی منتخب حکومت پاکستان کو مثالی ریاست بناسکتی ہے؟ قیام پاکستان کے بعد سے الیکشن کا عمل جاری ہے تو یہ ہے کہ 65 سالوں کوئی حکومت جو الیکشن کے
زریعے معرض وجود میں ائی ہو یا جرنیلوں کی امریت کا لبادہ اوڑھ کر نازل ہوئی ہو کوئی سرکار اپنے منشور وعدوں اور دعوووں کو عملی جامعہ پہنانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اقوام عالم کے تاریخی پس منظر کو حقائق کی عینک سے پر کھا جائے تو یہ روز روشن حقیقت سامنے اتی ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے ہزاروں کام اور تبدیلیاں ووٹ کی بجائے لگن جدوجہد اور انقلاب سے پایہ تکمیل تک پہنچیں۔

Vote

Vote

فرانس کی بادشاہت سے لیکر جرمنی کی شہنشاہت اور سوویت یونین کے زار سے لیکر16 لوئیس اور کوئن میری تک ساروں کو ووٹ کی بجائے انقلاب نے خش و خاک کی طرح بہاڈالہ۔دنیا بھر کے محنت کشوں سے 18گھنٹے کی جبری مشقت کروائی جاتی تھی۔1886 میں شگاگو میں محنت کشوں نے اپنی جدوجہد انقلابی لگن اور اتحاد و یکجہتی سے اپنے مطالبات تسلیم کروائے۔ مشقت کا دورانیہ8 گھنٹے ہوگیا۔1835 میں کشمیریوں نے ٹیکس دینے سے انکار کردیا۔ ڈوگرہ راج نے سات کسانوں جس میں سبز علی خان ایسے مقبول کسان لیڈر بھی شامل تھے کو درختوں پر لٹکا کر جسم کی کھال تک کھینچ ڈالی مگر کسی نے حاکموں سے معافی نہ مانگی یوں ٹیکس ختم ہوگیا اور بادشاہوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا۔منگولیا کی چراہ گاہوں میں انقلاب ایا تو بادشاہوں اور انکی فورسز نے ہتھیار ڈال دئیے۔

چند برس قبل فرانس کے مذدوروں نے حکومتی اداروں کو ہفتے میں36 گھنٹے کام کرنے کا مطالبہ منظور کروالیا۔محنت کشوں کی تمام کامران کامیابیوں کے پیچھے انقلابی جہد مسلسل کارفرما ہے۔عالمی سرمایہ دارانہ نظام تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہے۔ یواین او کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 10 ٪لوگ بے روزگاری کے جہنم میں گل سڑ رہے ہیں جبکہ 12٪ خیراتی اداروں کا کھانا نوش کرتے ہیں۔ جرمنی میں51 لاکھ اور جاپان میں65 ا لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔یواین او کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں بھوک افلاس غذائی قلت کے کارن روزانہ51 ہزار لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔

ایک طرف موت ہی موت ہے مگر دوسری طرف دنیا کے تین امیرترین لوگ48 پسماندہ ملکوں کو خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ایک طرف دنیا میں 5 ارب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو دوسری طرف دنیا میں ایک سال میں82 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت ہوتا ہے۔پاکستان اور یواین او کی مشترکہ مرتب کردہ ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 32 ہزارعورتیں زچگی کے دوران ہلاک ہوجاتی ہیں۔ہر سال4 لاکھ اور22 ہزار بچے اپنی پہلی سالگرہ منانے سے قبل دار فانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔1132 بچے بھوک کی وجہ سے روزانہ ماووں کی اغوش کو خالی کرکے لحد میں اترجاتے ہیں۔اس صورتحال میں کیا الیکشن حکمران اور سیاسی جماعتیں پاکستان کو مثالی ریاست بنانے کا وعدہ پورا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

PPP

PPP

ونر پارٹی کے اہم رہنما نے دوران کمپین زرداری پر دشنام طرازیوں کی کنگا بہاتے ہوئے کہا کہ وہ اداروں کی نجکاری نہیں کرپائے جسکا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ وہ اقتدار میں اکر قومی اداروں کو نجکاری کے کلہاڑے سے زبح کریں گے۔نجکاری سامراجی اقاووں کو خوش کرنے کا منصوبہ ہے۔نجکاری اور سرمایہ داریت نظام کی موجودگی میں عوامی خوشحالی کا خواب دیکھنا دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں۔مشرف دور میں روزانہ 11ہزار افراد غربت کی لکیر سے نیچے جارہے تھے ppp دور میں یہ تعداد25 ہزار روزانہ تک بڑھ گئی اور اسی ریشو سے دو سال بعد یہ تعداد35 ہزار تک پہنچ جائیگی۔ حالیہ الیکشن کو شفاف کہنا درست نہیں۔ عالمی سرمایہ دار اور انکل سام پاک ایران گیس پراجیکٹ اور گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے پر صدر زرداری اور پی پی پی حکومت پر سیخ پا تھے۔

نادیدہ ہاتھوں اور عالمی ایجنسیوں نے ڈالروں کے منہ کھول کر پاکستان میں ایسے حالات پیدا کردئیے کہ روشن خیال جماعتیں پی پی پی این پی پی اور ایم کیو ایم کو انتخابی میدان میں کمپین سے دور رکھا گیا عوام کو میڈیا وار سے خوف زدہ کیا گیا کہ وہ pp این پی پی اورmom کے جلسوں میں مت جائیں وہاں بم دھماکوں میں جانوں کا ضیاع ہوگا۔یوں pppاورanp کی کمپین گھروں تک محدود ہوگئی اور گیارہ مئی کو توقعات کے
عین مطابق دونوں کو شکست ہوئی۔ حکومتی تشکیل اور تعاون میں امریکہ سمیت یورپی ممالک پاکستان کی اس وقت حمایت کریں گے جب تک سامراجی مفادات کو تحفظ دینے کی یقین دہانی نہیں کروائی جاتی۔ افغانستان میں غیر ملکی مداخلت نجکاری قرضوں کی ر ی شیڈولنگ ورلڈ بنک اور ائی ایم ایف کی شرائط پر عملدرامد اور عوام کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ امریکی شرائط کے اہم نکات ہیں۔

Pakistan

Pakistan

امریکی شرائط پر عملدرامد کی صورت میں پاکستانی قوم اپنی خودمختیاری سے تہی داماں رہے گی۔نواز برادران کی محب وطنی کسی شک و شبے سے بالاتر ہے مگر کیا یہ ممکن ہے کہ امریکی سامراج کی معاشی و سیاسی غلامی میں قوم کو درپیش اندرونی و بیرونی ہوشربا مسائل سے چھوٹ مل سکتی ہے؟ پارلیمان میں پہنچنے والی سیاسی جماعتوں کی اکثریت میں سرمایہ دار جاگیردار لٹیرے سرکاری وسائل پر شب خون مارنے والے وڈیرے موجود ہیں کیا ان جمہوری لٹیڑوں کی موجودگی میں عوامی بھلائی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں جمہوری حکومتوں کی کارگزاریوں کی ساٹھ سالہ ہسٹری سے یہ سچائی الم نشرح ہوتی ہے کہ پانچ سالوں بعد سڑکوں اور سرکاری دفاتر میں بیروزگار نوجوانوں کے لشکر دندناتے پھریں گے۔ مذہبی جنونیت کا رقص بسمل جاری رہیگا۔سیاسی انتشار کا گراف بڑھ جائیگا۔ لاکھوں معصوم بچے چائلڈ لیبر کا نشانہ بنتے رہیں گے۔قومی اسمبلی مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتی رہیگی۔ کرپشن کے ریٹ بڑھ جائیں گے غربت بھوک ننگ کا ہر طرف راج ہوگا۔

انصاف کی فراہمی تشنہ طلب رہے گی۔مظلوم طبقات دوائیاں نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے رہیں گے۔ اگر قوم پاکستان بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی بیروزگاری غربت کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے اگر اٹھاڑہ کروڑ پاکستانی ریاست کو مثالی سٹیٹ بنانے کا عزم رکھتے ہیں تو انہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے کے مصداق انقلاب فرانس انقلاب ایران کی پیروی کرنی ہوگی ورنہ ووٹ کی طاقت سے پرانے شکاری نیو بہروپ میں قوم کو شعبدہ بازیاں دکھا کر اپنا الو سیدھا کرتے رہیں گے۔
تحریر : روف عامر