مرشد کی خوشبو آخری حصہ

Dargah of Hazrat Amir Khusrau

Dargah of Hazrat Amir Khusrau

مرشد کی خوشبو حصہ اول

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
حضرت امیر خسرو عالم حیرت اور مسرت میں بار بار ایک ہی فقرہ دہرائے جا رہے تھے ‘بو ئے شیخ می آید ۔۔۔مجھے میرے مرشد شیخ کی خوشبو آرہی ہے وہ بار بار اپنے اطراف کا جائزہ لے رہے تھے اور اُس جگہ کو ڈھونڈ رہے تھے جدھر سے اُنہیں اپنے مرشد کی خوشبو آرہی تھی ۔ امیر خسرو کی حالت اور اضطراب دیکھ کر فوجی افسر بھی گھوڑوں سے نیچے اُتر آئے اور آپ سے پوچھا امیر آپ کیا محسوس کر رہے ہیں تو امیر خسرو بولے میں اِس جگہ اپنے مرشد کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں ‘امیر خسرو کے لہجے میں حیرت اور خوشی پنہاں تھی لیکن آپ کے مرشد تو یہاں سے بہت دور غیاث پور میں قیام فرما ہیں ۔میں جانتا ہوں کہ آستانہ مرشد یہاںسے بہت دور ہے لیکن میں اپنے مرشد کی خوشبو کو کروڑوں خوشبوئوں میں سے پہچان سکتا ہوں اُن کی خوشبو نے میرے دل و دماغ کومعطر اور وجدمیں مبتلا کر دیا ہے امیر خسرو عقیدت و احترام سے بولے ۔ یہ جگہ اور فضا میرے مرشد کی خوشبو سے مہک رہی ہے لگتا ہے وہ یہیں کہیں رونق افروز ہیں یا یہاں سے گزرے ہیں ۔

آخر امیر خسرو اور فوجی خوشبو کے تعاقب میں اُس سرائے کی طرف بڑھے جہاں مرشد کے جوتے مبارک تھے قریب جا نے پر خوشبو کا احساس اور بھی تیز ہو گیا ۔ مالک سرائے کو بلا کر جب دروازہ کھلوایا گیاتو خو شبو کے معطر جھونکے اور بھی تیز ہو گئے خوشبو نے امیر خسرو کے مشام ِ جان اور بھی معطر کر دیا دروازہ کھلنے کے بعد امیر خسرو تیزی سے اُس گوشے کی طرف بڑھے جہاں مرشد کے نعلین مبارک سے خوشبو کے جھونکے آرہے تھے ۔ آپ نے اُس مہمان کو اٹھا یا اور معذرت کی اور پوچھا کہ آپ کے پاس سے میرے مرشد کی خوشبو کیوں آرہی ہے ۔ وہ شخص آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور حیرت سے امیر خسرو کو دیکھ رہا تھا ۔ حضرت امیر خسرو نے اپنا مختصر تعارف کرا یا اور کہا کہ میرے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی خوشبو تم سے آرہی ہے جس نے مجھے تمہاری طرف متوجہ کیا ۔ ہاں میں حضرت نظام الدین سے ہی مل کر آرہا ہوں اب وہ شخص بولا امیر خسرو جذباتی ہو کر بولے میرے مرشد کیسے ہیں وہ خیریت سے ہیں ناں ؟ ہاں وہ خیریت سے ہیں لیکن اُنہوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا وہ شخص بو لا ۔

میں نے اُن کی بندہ پروری اور سخاوت کے بہت چرچے سنے تھے اِس لیے اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے اُن کے پاس گیا لیکن آپ کے شیخ نے اپنے پرانے جوتے میرے حوالے کر دیے اور فرمایا یہ جوتے ہی تمہاری ضرورت پو ری کریں گے ‘کہاںہیں میرے مرشد کے نعلین پاک امیر خسروکے چہرے پر عشق و محبت کے سینکڑوں چراغ روشن ہو چکے تھے ۔ اُس شخص نے رومال سے نکال کر جوتے امیر خسرو کے سامنے رکھ دیے ‘جوتے دیکھ کر امیر خسرو کے چہرے پر خو شی اور عقیدت کا آبشار اُبل پڑا تھا آپ بولے اے شخص کیا تُو اِن جوتو ں کو فروخت کر ے گا ۔ امیر خسرو اُس شخص کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔جیسے وہ دنیا کے سب سے بڑے خزانے اور قیمتی چیز کو خرید رہے ہوں وہ شخص حیرت اور پریشانی سے بولا پہلے آپ کے مرشد نے مذاق کیا اب آپ مذاق کر رہے ہیں ۔ نہ وہ مذاق تھا اور نہ یہ مذاق ہے تو نے میرے مرشد کو پہچانا ہی نہیں امیر خسرو کے لہجے سے عقیدت اور جلال جھلک رہا تھا ۔ جناب آپ اِن جوتو ں کی کیا قیمت دیں گے اُس شخص نے مذاقاً امیر خسرو سے کہا ۔

Horse Loaded

Horse Loaded

اِس وقت میرے پاس پانچ لاکھ نقرئی سکے ہیں اگر یہ تھوڑے ہیں تو میرے ساتھ دہلی چلو میں اتنے ہی اور دے سکتا ہوں ‘سید زادے پر سکتا طاری ہو چکا تھا اُس نے جو تے امیر خسرو کے حوالے کیے اور کہامیرے لیے تو ایک ہزار ہی کافی ہیں آپ خدا کے لئے مکر نہ جانا امیر خسرو نے اُس شخص کا ہا تھ پکڑا اور اُس جگہ پر لے آئے جہاں نقرئی سکوں سے گھوڑے لدے ہو ئے تھے ‘آپ نے اشارے سے کہا یہ تمام سکے اب تمہارے ہیں یہ سن کر وہ شخص پتھر کا مجسمہ بن چکا تھا اُسے اپنی بصارت پر یقین نہیں آرہا تھا ۔جب وہ حیرت کے سمند رسے نکلا تو بولا میں یہ سب مال اپنے گھر کس طرح لے کر جائوں گا ، کون میری بات کا یقین کر ے گا کہ یہ ساری دولت میری ہے ۔ لوگ یقین نہیں کر یں گے وہ کہیں گے کہ میں نے ڈکیتی یا راہ زنی کی ہے ۔

آپ برائے مہربانی مجھے ایک تحریر لکھ کر دیں آج سے اِس ساری دولت کا مالک میں ہوں ‘حضرت امیر خسرو نے فوری طور پر ایک کاغذ منگوایا اور اس پر یہ تحریر کیا کہ میں امیر خسرو ، سلطان علائو الدین خلجی کے دئیے ہو ئے انعام کی رقم شخص مذکورہ کو بطور نذر پیش کر رہا ہوں ۔ سید زادہ مطمئن ہو گیا تو امیر خسر و نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس شخص کو بحفاظت اِس کے گھر چھوڑ کر آئیں تاکہ تما م دولت خیریت سے سید زادے کے گھر پہنچ جائے اور پھر اپنی دستار میں مرشد کے جوتے نہایت عزت و احترام سے باندھے اور تیزی سے اپنے مرشد کے آستانہ کی طرح دوڑے اور پھر مرشد خانے پر پہنچے تو دیکھا دربار نظامی اپنے پو رے جو بن پر تھا’ محبوب الٰہی ہجوم میریداں میں جلوہ افروز ہیں ۔

پھر چشم فلک اور حاضرین نے نہایت حیران کن منظر دیکھا کہ امیر خسرو نے نہا یت عقیدت و احترام سے اپنے ہا تھ اپنے سر پر بلند کئے ہو ئے ہیں ‘محفل درویش پر سناٹا طاری تھا کہ خسرو آج کیا لے کر آئے ہیں ۔ ہر کو ئی اپنے دل و دماغ میں اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا ‘آج خسرو مرشد کے لیے کیا لے کر آئے ہیں جب امیر خسرو مرشد کریم کے قریب پہنچے تو محبوب الٰہی نے دلنواز تبسم سے خسرو کو دیکھا اور بو لے خسرو کامیابی کا سفر مبارک ہو لیکن تم اپنے مرشد کے لیے کیا تحفہ لائے ہو ۔

Amir Khusro History

Amir Khusro History

امیر خسرو عقیدت سے جھک گئے اور اپنی قیمتی ریشمی دستار میں بندھے نعلین مبارک آپ کے قدموں میں رکھ دئیے اور بو لے حضور میں آپ کی خدمت میںآپ ہی کی نشانی لا یا ہوں کیو نکہ پو ری دنیا کے خزانے ایک طرف اور آپ کے جو تے مبارک ایک طرف آپ ہی کے جوتے مبارک لا یا ہوں’ دنیا کی کو ئی اور چیز اِن سے قیمتی نہیں ہے یہ کہہ کر امیر خسرو محبوب الٰہی کے قدموں سے لپٹ گئے ‘حضرت نظام الدین دلنواز مسکراہٹ سے بولے خسرو کتنے میں خریدے ؟امیر خسرو شدت جذبات سے روتے ہو ئے بو لے حضور پانچ لا کھ نقرئی سکوں میں ۔ بسیار ارزاں خریدی ( بہت سستے داموںخریدے ) نظام الدین محبت سے بولے سستے خریدے امیر خسرو روتے ہوئے کہے جا رہے تھے حضور اس شخص نے اس پر قناعت کی ورنہ اگر وہ اِن جوتوں کے بدلے میری ساری جائیداد اور دولت بھی مانگتا تو میں اُس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا ۔ خسرو اگر تم ایسا کر تے تب بھی یہ سودا بہت سستا تھا محبوب اٰلہی نے محبت سے فرمایا ۔

خسرو نے گلو گیر لہجے میں کہا حضور یہ سب اِس غلام پر آپ کی ایک نگاہ کا کرم ہے ورنہ یہ حقیر اِس قابل کہا تھا ۔ امیر خسرو اور محبوب الٰہی کی محبت کا یہ عالم تھا کہ محبوب الٰہی اکثر فرمایا کر تے تھے کہ قیامت کے دن اگر مجھ سے سوا ل کیا گیا کہ تُو دنیا سے کیا لے کر آیا ہے تو عرض کرو ں گا خسرو کے سینے کا سوز کے کر آیا ہو ں ایک بار کہا اگر میری پیشانی پر آرا رکھ دیا جا ئے اور کہا جا ئے کہ خسرو کو چھوڑ دو تو میں اپنی پیشانی کو چھوڑ دوں گا مگر خسر و کو ہر گز نہ چھوڑوں گا ۔ امیر خسرو واحد مرید تھے جو جب چاہتے محبوب الٰہی کے حجرے میں چلے جاتے آپ حجرے میں جاکر خاموش کھڑے ہو جا تے مرشد حکم دیتے تو اپنا کلام یا کسی کا کلام سنا دیتے اور باتیں کر تے کر تے اگر محبوب الٰہی سو جاتے تو امیر خسرو مرشد کے پیروں پر سر رکھے رکھے سو جا تے ایک بار کئی دن تک خسرو کو اذنِ بازیابی نہ ملا بہت اداس اور تڑپے اور پھر جانے کی اجازت ملی اور محبوب الٰہی نے حجرے میں طلب فرمایا تو شدت ِ جذبات سے رونے لگے محبوب الٰہی نے رونے کی وجہ پو چھی تو خسرو پا ئوں سے لپٹ گئے پا ئوں کو بو سے دینے لگے اور عرض کیا ۔ غریب خسرو اِس حسرت میں کئی راتوں سے جاگ رہا ہے کہ کب موقع ملے کہ حضور کے تلوئوں پر اپنی آنکھیں رکھ کر سوئے ۔

مرشد کی خوشبو حصہ اول

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956

Amir Khusrow

Amir Khusrow