عبدالستار ایدھی پیرس میں

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

تحریر : شاہ بانو میر
16 نومبر بروز سوموار 2010 مجھے انویٹیشن تھاـ یونسکو کی طرف سے چار بجے ایک پُروقار تقریب میں یونسکو کیجانب سے مدن جیت پرائز دیا جا رہا تھا ـ ایک تو بیلجئیم کی انسان دوست شخصیت تھی ـ اور دوسرے ہمارے ایک مایہ ناز سپوت محترم عبدالستار ایدھی تھے ـ میں وقتِ مقررہ سے کچھ دیر پہلے ہی وہاں پہنچی یہ دیکھ کر آنکھیں تشکر سے اللہ کے حضور جھک گئیں ـکہ ہمارے پریس کلب کے سب ممبرز باوجود سردی کے وہیں مین گیٹ کے پاس کھڑے تھے میرے انتظار میں کہ میں آؤں تو وہ سب اندر جائیں ـ ہم کہیں بھی چلے جائیں ہماری کچھ روایات دنیا میں سب سے مختلف ہیں ـ اور یہ انعام ہے ہمارے پیارے مذھب اسلام کا کہ جس نے احترام اور محبتوں کے رشتے بنائے ـ وہاں کھڑا سیکیورٹی گارڈ بھی حیران ھو رہا تھا کہ یہ سب ایک خاتون کیلئے ٹھنڈ میں کھڑے تھے ؟ میں جانتی ہوں وہ یقینا اپنی روایت کے حساب سے بے حسی سے یہ سوچ رہا ہوگاـ کہ کیا جو ایفل ٹاور کے پاس اس عمارت میں آ سکتی ہے وہ بلڈنگ کے اندر جاتے ہوئے کیا راستہ بھول جاتی ـ جو یہ سب اتنی دیر سے اس کا ویٹ کرر ھے ہیں ـایک خفیف سی مسکراہٹ اسکی حیرانگی پر بے ساختہ میرے لبوں پر پھیل گئی اور اسکو سوچتے دیکھ اس کے سامنے سے گذر کر ہال میں داخل ہو گئیـ

ایفل ٹاور کے پہلو میں ایستادہ یہ بلڈنگ یونسکو کی امارت کا منہ بولتا ثبوت تھی ـ بیحد مہنگے علاقے میں اتنا بڑا آڈیٹوریم باعثِ حیرت تھا ـ AVENUE SAFRON 123 تک پہنچے میں جے پی ایس کی وجہ سے کوئی خاص دقت نہیں ہوئی تھی ـ ہال میں ہم سب جب داخل ہوئے تو ایک لمحے کیلئے میری آنکیھی چندھیا گئیں ـ بے انتہا خوبصورت ہال اور پوری دنیا کا میڈیا ٹاپ کلاس آفیسرز سب کے سب ایمبیسی میں کام کرنے والے لوگ ان کا اپنا ہی ایک انداز ھے ایک خاص سٹائل ہےـ آپ ان سے گفتگو کر کے خود ہی اپنی اردو کی غلطیاں تلاش کرتے ہیں ـ اپنی ریزرو سیٹس پر بیٹھ کر سامنے دیکھا تو وہاں وہی نورانی صورت نظر آئئ کہ جس کے لئے آج یہ محفل سجائی گئی تھی ـ وہی سادگی خاموشی اور وہی لٹھے کا پائجامہ اور سوتی قمیض واہ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ وہی ملک جس کو دہشت گرد کہتے ان کا میڈیا دن رات تھکتا نہی ہےـ آج ایک حب الوطن اکیلے پاکستانی نے اپنے افعال سے سب کو یہاں آنے پے مجبور کر دیاـ اور یہ ثبوت دیا کہ ہم دہشت گرد نہیں ہم تو انسان دوست قوم ہیں ـ آج کے دن یونسکو نے ان کو مدن جیت ایوارڈ کے انعقاد کیلئے بلایا تھاـ

آج کے دن دو لوگ چنے گئے تھےـ 1 بلجئیم کے 2 پاکستان سے عبدالستار ایدھی پہلے بیلجئیم والی پرسنیلٹی کا تعارف کروایا گیاـ اس نے اپنی خدمات انڈونیشیا میں دی تھیں اور وہاں کے غریب لوگوں کیلئے بہت کام کیا تھا ـ جس وقت سینما سکرین پے اسکی ڈاکو مینٹری فلم چل رہی تھی تو اس انسان کی عظمت کو سلام کیا کہ ایک غیر مسلم ہوتے ہوئے اس نے ایک مسلم کنٹری کو چنا کام کرنے کیلئےـ اسکے ساتھ ہی ایک خیال بڑی شدت سے یہ بھی آیا کہ کیا بات ہے کہ یہ گورے چٹی چمڑی والے ہی ہمارے ہر درد کا درماں ہیں ہم انہی کو کوستے ہیں ـ یہ سب کچھ جانتے ہیں لیکن یہ کس مٹی سے بنے ہویے ہیں کہ پھر انہی میں سے کوئی مسیحا بن کے آجاتا ھے اور زخموں پے مرہم بھی رکھ دیتا ہے ـ اور دوسری بات یہ زہن میں آتی رہی کہ آخر کب تک ہم نے تمام مسلم دنیا نے مضبوط نظام کے ہوتے ہوئے بھی خس و خاشاک کی طرح ادھر سے ادھر کشکول کے ساتھ رحم ہمدردی کی روٹی کی بھیک مانگتے پھرنا ہےـ

UNESCO

UNESCO

سیٹوں کے ساتھ ہی ہیڈ فونز لگے ہوئے تھےـ بائیں طرف کیبن بنے ہوئے تھے جہان اس وقت 4 کیبن میں ٹرانسلیٹرز بیتھے ہوئے تھےـ جو بیک وقت فرنچ سپینش اردو اور انگلش میں تقاریر کا ترجمہ سنا رھے تھےـ ان کا نظام مکمل مربوط ایک شان ایک تپاک ایک سنجیدگی اور کام میں پرفیکشن ہال پے چھائی ہویی تھی ـ یہاں سی این این بی بی سی اور فاکس کے نمائیندوں کو دیکھا بڑے بڑے ہیوی کیمروں کے ساتھ بہترین اور مہارت سے کوریج کرتے ہوئے ـ فرانس کے پانچوں چینلز کے کیمرہ مین بھی نظر آئے کچھ بلجیک بھی تھےـ لیکن بار بار گردن گھما گھما کر دیکھتے کے ہمیں جیو جو ہر جگہ پہنچ جاتا ھےـ جیو پروگرام ختم ہوا تو جیو والے نظر آئے رضا صاحب اسکے ہوسٹ جو بعد میں ہمارے انٹرویو لیتے رھے ـ اسکا لوگو نظر نہیں آیا دکھ ھوا اور افسوس بھی کہ اتنے اہم موقعے پے ایسی سستی کیوں؟ بیلجیک پرسنیلٹی کا تعارف کروایا گیاـ پہلے اسکی زاتی زندگی کو اس کے کام کوـ ایک فلم کی صورت خوبصورت انداز میں فلم بند کیا گیا تھا ـ سب کی مکمل توجہ تھی اور انہماک بھی خاموشی سے اسکے کام اور انسانیت دوست جذبات کو سراہا گیاـ

اس کے بعد وہ خود تشریف لائے ارو اپنی بیحد ہمدردی انڈونیشن عوام کے ساتھ بتاتے ہوئے انہوں نے یونسکو کا شکریہ ادا کیاـ کہ آج انہیں یہاں بلا کر ان کے کام کو سراہ کر اصل میں انسانیت کو سراہا ہے یونیسکو نے ـ انہیں 50000 ڈالرز کا چیک دیا گیا ـ جو انکی انسان دوست خدمات کا اعتراف تھا ـ سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ـ کافی عمر رسیدہ تھے وہ بڑی مشکل سے چیک لیکر وہ واپس اپنی سیٹ پر بیٹھے ـ اب جگر تھام کے بیٹھو کہ میری باری آئی ـ ان کے بعد کافی تفصیل سے ہمارے محترم عبدل الستار ایدھی صاحب کا ذکر کیا گیا ـ پہلے تو میزبان نے انتہائی خوبصورتی سے جامع الفاظ میں ان کو خراجِ تحسین پیش کیا ـپاکستان کو ہر مشکل میں آگے بڑھ کر بچانے پر ان کو عمدہ الفاظ میں اپنی اور یونیسکو کی جانب سے سراہا ـ پھر ایک اور ڈاکو مینٹری فلم دکھانے کا اعلان ہواـ جس میں ان کاموں کی تفصیلات تھیں۔ جس کی وجہ سے آج وہ پاکستان سے پیرس آئے یہ انعام حاصل کرنے ہال میں ایک بار پھر اندھیرا کر دیا گیا ـ اور فلم کا آغاز ھواـ ایک کے بعد دوسرا سین ایک کے بعد دوسرا غم ایک کے بعد دوسری مایوسی یہ کوئی اور ہی دنیا تھی جو میری آپکی اس رنگوں کی دنیا سے بہت الگ تھی ـیہاں ہماری طرح بلند و بانگ قہقہے نہیں تھےـ

ہر آنکھ پُرنم ہر دل اداس ہر چہرہ مایوس کہیں تو بن ماں باپ کے بچے پالنوں میں لیٹے اپنے وجود کی شناخت مانگتے نظر آئےـ جو انسانیت کی بے حسی کی علامت زندہ جیتے جاگتے رو کے شور مچا کے پوچھ رھے تھے کہیں بوڑھی لاغر مائیں مایوسی سے کبھی نہ آنے والی اولاد کی راہیں تکتے ہوئے دیکھیں جو کبھی نہ آنے کیلئے انہیں یہاں چھوڑ گئے تھے ـ کہیں مسائل مظالم اور سماجی نا انصافیوں میں پِسے ہوئے زھنی مریض نظر آئےـ جو خود سے ہی نا آشنا تھے ـکی جاناں میں کون؟ کہیں لاشوں کے تعفن کی پرواہ کئے بغیر ایدھی صاحب کو دکھایا ـ کہی بے آسرا خواتین کو کام کرتے انہی کے اداروں میں دکھایا ـ وہ دنیا کیا دنیا تھی ـ ؟ میں تو ارد گرد کا ماحول موقع سب بھول گئی آنسوؤوں کا ایک نہ رکنے والا سیلِ رِواں تھاـ جانے کب ہوں گے کم اِس دنیا کے غم جو ان ہم وطنوں کی مفلسی بے بسی کسمپرسی پر نجانے کب کیسے نکل آئے ـ ایدھی صاحب کو کہیں تو ان لاوارث بچوں کو گود میں لیکے ان کے ساتھ ایک شفیق باپ کی طرح باتیں کرتے دکھایا گیا ـکہیں ان کو زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے نحیف وجود کے ساتھ بھاگ دوڑ میں مصروف دکھایا گیاـپورا ہال یوں خاموش تھا ـ جیسے وہاں کسی ذی النفس کا وجود ہی نہیںـ

Life

Life

سوائے سانسوں کے سرسراہٹ کے اور تو جیسے کہیں زندگی تھی ہی نہیں ـ یہ لوگ بےحس لوگ ہیں جو سسٹم میں زندہرہتے ہیں ـ ہر چیز کو ہر بات کو کاغذوں اور ثبوتوں سے جانچتے اور پرکھتے ہیں ـجذبات کا احساس کا اور ہمدردی کا ان کی زندگی میں کہیں گزر نہیں ـ ایک زندگی جو سخت مقابلہ مانگتی ہے ـ اپنی شناخت اپنیمحنت سے اور وہی محنت وہی حسد آگے بڑھنے کا جنون ان کے مزاج کو انکی سوچ کو انکے طرزِ عمل کو بہت پختہ بہت سخت اور بیحد محنتی بنا دیتا ھے ـجزباتی مناظر ان کے لئے وہ احساس وہ جزبات پیدا نہیں کرتے جو ہمارے دلوں اورآنکھوں میںپیدا ہو جاتے ہیں ـ یہ لاگ گرجا گھروں میں نہیں جاتے یعنی ان لوگوں نے دعا کی بجائے عمل کی دوا کو اپنا لیا ـ وہی عمل آج ہمارے ایک پاکستانی سپوت کو انکی شاندار انسانی خدمات کے عوض نوازنے جا رھے تھے ـ مجھے اس ہال کی تاریکی میں پہلے کی طرح آج بھی شرمندگی سی محسوس ہوئی ـ اپنے ملک کی ناداری دیکھ کے اپنے ملک کی افلاس غربت دیکھ کے اپنے ملک کی نئی نسل کی بے حسی دیکھ کے یوں لگا کہ کانوں پے ہیڈ فون لگائے سب لوگ انہماک سے اس فلم کی کمنٹری نہیں سن رھے ـ بلکہ مجھے ہی دیکھ رہے ہیںـ

حالانکہ ایسا نہیں تھا ـ سب لوگ غور سے ان کی انسانیت کی روشن مثالیں دیکھ اور سن رہے تھےـ اس پوری فلم میں ان کو جو جو کام کرتے دکھایا ـ ایک انسان ہو کے خود پے شرمندگی سی محسوس ہوئی کہ ہم میں ان کے جتنی نہ سہی اس کا چوتھا حصہ بھی انسانیت پیدا ہو جائے تو تو شائد ملک میں سے بہت سی چیزیں بہتر ہو جائیں ـ ان سے پہلے بھی بلجئیم کے ایک شخص کو یہی پرائیز ملا تھا ـ لیکن مناسب سی تالیاں تھیں ـ لیکن ایدھی صاحب کیلئے بس کھڑے نہیں ہوئے مگر تالیوں کی اتنی لمبی گونج شائد اس ہال کیلئے بھی ایک منفرد مثال ھو گی اُس وقت میرا سر فخر سے بلند ہو گیا ـ کہ یااللہ تیرا شکر ہے ـ کہ کتنے لمبے سفر میں آبلہ پا تھے ہم کچھ تو آرام ملاـ اس فلم کے بعد ایدھی صاحب کو بلایا گیا کہ وہ آئیں اور اپنا تعارف خود دیں ـلیکن ستار صاحب کافی لاغر اور کمزور لگ رھے تھے ـ وہ ٹھیک سے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے ـانکی طرف سے انکا تعارف ایمبیسی کے ایک آفیسر نے کروایاانکی تقریر ختم ہوئی تو پھر سے ایک بار وہی تالیاں پھر سے جو آج شائد یورپ کی پاکستان مخالف ہواؤں کو یہ پیغام دینا چاہتی تھیں کہ “”غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا “””ایسے گوہر کم سہی لیکن ہمارے پاس ھیں ـ تم نے ایک رخ تصویر کا دکھایاـ

کاش دوسرا رخ یہ والا بھی دنیا کو دکھا دیتے کہ ایسے انسان دوست انسان بھی ہمارے پاس ھیں ـ ہماری دھرتی ابھی بھی سر سبز ہے بنجر نہیں ہےـ ابھی تو کئی ایدھی موجود ھیں مگر تم نے تو ایک سیاہ رخ کو ہی مرکز بنا کے ڈھنڈورا پیٹ ڈالا ـ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی ہال کی روشنیوں کو دوبارہ سے روشن کر دیا گیا ـ اور مدن جیت سنگ نے آکے 50000 ڈالرز کا چیک ایدھی صاحب جو سہارا لیکے کھڑے تھے بڑے احترام سے انکی خدمت میں پیش کیا ـ آج کا دن بلاشبہ ان لاکھوں پاکستانیوں کیلئے جشنِ آزادی پاکستان کے دن کی طرح باعثِ فخر تھا ـاسکے ساتھ ہی دنیا بھر سے آئے ہوئے تمام کیمرہ مین اپنے کیمروں کو بند کر کے واپسی کیلئے روانہ ہوئے ـ اور صحافی حضرات نے بھی کانوں سے ہیڈ فونز اتارے اور کاغذات کو سمیٹ کر روانگی کیلئے تیار ھو گئےـ

Award

Award

ہمیں سب کو سٹیج پے بلایا گیا اور ہمیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھے ـ اور کچھ باتین بھی کیں اسکو آپ انٹرویو نہیں کہہ سکتے ہاں البتہ کچھ معلومات ذاتی ضرور کہہ سکتے ہیں ـ آئیے دیکھیں کہ ان کی کچھ ذاتی باتیں کیا ہیں ـاسلام علیکم پیرس کی فضاؤں میں خوش آمدید کہتی ہوںوعلیکم اسلام خوش رہیں میرا بھی سلام سب پاکستانیوں کو آپ کے پاس ٹائم کم ہے کیونکہ ابھی اور بہت سے لوگوں سے آپ نے بات کرنی ہے تو مختصر سا اپنے بارے میں خود بتا دیں ـمیں عام سا بچہ تھا لیکن میرے گھر کے حالات عام نہیں تھے ـمیری والدہ ذہنی مریضہ تھیں ـ اور انکی حالت کبھی کبھی بہت بری طرح سے بگڑ جاتی تھی ـ والدہ کی دیکھ بھال کی وجہ سے میں بہت کم تعلیم حاصل کرسکاـ جس کا مجھے ہمیشہ ہی دکھ رہا ہے ـ والدہ کی ذھنی حالت درست نہ ہونے کے باعث میرا زیادہ وقت ان کی دیکھ بھال میں گزرتا تھاـ انکی بے بسی بیچارگی نے میرا ذہن اس طرف راغب کیا کہ نجانے کتنے ایسے والدین ھیں کہ جن کی اولاد انکا خیال نہیں رکھتی ہوں گیـ

ایک ایک دن کا کرب مجھے آج بھی یادہے ـ اور پھر والدہ کی بے بسی اور انکی وفات کے بعد تعلیمی سلسلہ موقوف ہوا تو میں نے ابتدا میں انسانیت کی خدمت کیلئے ایک ڈسپنسری شروع کی لوگوں نے تعاون کیا ـکیونکہ انہیں اس ڈسپنسری سے واقعی کوئی سہولت مل رہی تھی ـ بس پھر پیچھے کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا ـ آگے اور آگے انسانیت کیلیۓ مجھ سے جو کچھ بن پڑا وہ کیا ـ شادی کی تو بیگم کو ذاتی طور پے مجھ سے کئی ِگِلے ہوں گےـ لیکنوہ بھی میرے ساتھ مل کے اسی طرح کام کرتی رہیں کہ مجھے لگا کہ انکی آمد نے کام کو اور مضبوط کر دیا ہے ـ اور کام بھی پہلے سے بڑھ گیا ہے ـ میں نے کبھی کسی غیر پاکستانی سے مدد نہیں لی یہ میرا ریکارڈ تھاـ بی بی لیکن یہاں آنے کیلئے اس وقت سب پاکستانیوں کا بہت اصرار تھا کہ آپکی آمد اس وقت ایک اچھا پیغام دے گی انٹرنیشنل میڈیا کو کہ پاکستان میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کے علاوہ بھی اور کچھ ہوتا ہےـ

اس لئے مجھے یہ دعوت قبول کرنی پڑی ـ آپکی آمد پر ہم سب پاکستانی بیحد خوش ہیں اور آپکی خدمات کو دل سے سراہتے ہیں ـ اسی دوران انکی بیٹی آگئیں اور انہیں اٹھا کے لیجانے لگیں کیونکہ ان کا کہنا تھا وہ شدید بیمار ہیں ـ اور اس پروگرام کیلیۓ سارا دن انہوں نے ڈاکٹرز کی ہر ہدایت کو پس پشت ڈال دیا ہےـ جو ان کے لئے خطرناک ہے ـ درد دل انسانیت اور سچی ہمدردی واحد اس انسان میں دیکھی جس کی تصدیق آج کا یہ پروگرام اس کے لوگ اور بجتی ہوئی تالیاں کر رہی تھیںـ

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر : شاہ بانو میر