احتساب والوں کا بھی احتساب

Accountability

Accountability

تحریر : واٹسن سلیم گل،ایمسٹرڈیم
پاکستان میں اس وقت سیاسی عدم استحکام ہے۔ پانامہ لیک پاجامہ لیک کی صورت اختیار کر گئ۔ اور نواز شریف کے خلاف کرپشن ، منی لانڈرینگ، ٹیکس چوری، پانامہ اسکینڈل اور غیر قانونی جائداد کے حوالے سے کچھ ثابت نہ ہو سکا تو اپنے ہی بیٹے کی کمپنی کا چئیرمین ہونا جرم بن گیا۔ اصل فیصلہ تو پہلے ہی ہوچکا تھا جب زہین بن چکا تھا۔ فیصلے سے پہلے ہی نواز شریف کے لیے سسیلین مافیا اور گاڈ فادر جیسی اصتلاح استمال ہوئیں اب شریف خاندان کا کیس انکوائیری عدالت میں بھیجنے کے باوجود یہ ہی بینچ مانیٹر کرے گا تو انصاف کیسے ہوگا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کبھی بھی جمہوری وزیراعظم نے اپنی جمہوری مدت پوری نہی کی۔ تاریخ اس فیصلہ کو بھی متناضہ ثابت کرے گی جیسے کہ بھٹو کے فیصلے پر آج لوگ اسے عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے ان سیاسی جماعتوں پر جو اس وقت خوشیاں منا رہے ہیں۔ نہی جانتے کہ ان کو بھی ایک دن اسی طرح پچھتانا پڑے گا جیسے کہ آج ن لیگ یوسف رضا گیلانی کی معطلی کے وقت پر اپنے کردار پر پچھتا رہے ہیں۔ سیاسی دھما چوکڑی اس وقت اپنے عروج پر ہے ۔ یہ تاریخی فیصلہ پاکستان کے سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات چھوڑے گا۔

پاکستان میں سیاسی ہلچل اپنی جگہ ، مگر جس احتسابی عمل کا اغاز ہوا ہے وہ خوب ہوا ہے۔ ابھی تک توصرف اپوزیشن والوں کے حساب کتاب ہوا کرتے تھے۔ حکومت وقت کی جانب سے ان پر مقدمے بنتے تھے۔ مگر ایسا پہلی بارہوا ہے سترہ اٹھراں سا لوں میں میرا مطلب ہے کہ گزشتہ 70 سالوں میں کبھی نہ سنا نہ دیکھا کہ حکومت وقت احتسابی عمل سے گزری اور اپنا اثر رسوخ استمال نہ کر سکی۔ مجھے باربار یہ لکھنا پڑتا ہے کہ مجھے نواز شریف سے کوئ ہمدردی نہی ہے کیونکہ اس کی بادشاہت میں پنجاب میں مسیحیوں کو بہت سے مسائیل کا سامنا ہے اور ن لیگ نے ابھی تک اقلیتوں کے حقوق کے لئے کوئ جامعہ منصوبہ بندی نہی کی ۔ اس کے باوجود بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سیاست کے موجودہ منظر نامے پر مجھے نوازشریف سے زیادہ قابل اور بہتر راہنما نظر نہی آرہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہے۔ نواز شریف کا بھی احتساب ہونا چاہئے تھا اور بہت پہلے ہونا چاہئے تھا مگر جے آئ ٹی کی قلابازیوں نے دودھ میں مینگڑیاں ڈال دی تھیں۔ ایک بات تو واضع ہے کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ ویسے ایک لحاز سے تو ٹھیک ہوتا ہے کیوں کہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اگر ان کے ہاتھ میں نہی بھی ہوتی تو یہ خفیہ ہاتھوں کا زکر کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ اور اس وقت تک خفیہ ہاتھوں کا زکر نہی کرتے جب تک حکومت میں ہوتے ہیں ہاں جب حکومت اپنے ہاتھوں سے چھن جاتی ہے اور پاؤں کسی دوسری سر زمین پر ہوتے ہیں تب یہ خفیہ ہاتھوں کا زکر کرتے ہیں مگر تب تک تو چڑے کھیت چُگ چگا کر پھُر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایک اور قسم کے ہاتھ ہیں جن کا احتساب ہونا چاہئے اور یہ ہاتھ خفیہ بھی نہی ہوتے مگر یہ بھی احتسابی عمل کے ہتھے نہی چڑھتے یہ ہاتھ بیوروکریسی کے ہاتھ ہیں۔

ان کی کرپشن کو پکڑنا ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے کہا جائے کہ کمرے میں موجود مکھی کو اس کی آواز کی مدد سے پکڑو۔ وہ شخص سارا دن دیواروں میں ٹکراتا پھرے گا آواز بھی آرہی ہے اور مکھی بھی پکڑی نہی جاتی۔ پکڑی تو تب جائے گی جب مکھی وہاں موجود ہوگی۔ یہ بیوروکریسی والے مکھی کی آواز کی ریکارڈینگ چلا کر احتساب والوں کو کمرے میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لئے نہ مکھی پکڑی جاتی ہے اور نہ ہی یہ خود پکڑے جاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ایمان دار ہوتے ہیں۔ ان کی ایمان داری کی یہ مثال ہے کہ یہ برابر بانٹ کر کھاتے ہیں۔ اور جن وزیروں مشیروں کے ساتھ مل کر کھاتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں ہوتے ہیں کہ شاید ہم زیادہ کھا رہے ہیں۔ نواز شریف کا احتساب جس مقدمے میں ہونا چاہئے تھا اس میں نہی ہوا۔ اگر نواز شریف کے خلاف اصغر خان کیس کھُل جاتا تو نواز شریف پہلے ہی اس کی لپیٹ میں آجاتا۔۔ اس لئے کہ اس مقدمہ میں تمام ثبوت اور گواہان موجود ہیں مگر یہ مقدمہ کھلتا کیسے کیونکہ جنہوں نے مقدمہ کھولنا تھا وہ خود بھی اس بھنور میں پھنس سکتے تھے۔

شہباز شریف بھی جب تک چُپ رہے گا بچا رہے گا ورنہ ماڈل ٹاؤن والا کیس ان کے لئے بھیانک خواب بن جائے گا۔ احتساب ہو اور ہوتا ہوا نظر آئے تب ہی قومیں اپنے مستقبل کو محفوظ بناتی ہیں۔ ورنہ معاشرہ زہنی غلاظت اور اخلاقی گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے ۔ ویسے ہمارے معاشرے کے انصاف کے نظام کے کیا کہنے۔ امیر کے لئے انصاف کا اعلی نظام یعنی نیب، اور غریب کے لئے انصاف کا ادنا نظام یعنی پولیس۔ امیر اور اشرافیہ اسمبلیوں میں ٹی وی کیمروں کے سامنے اپنی ہی ساتھی خواتین کی بے عزتی کریں تو ان کے لئے کوئ احتساب نہی کر سکتا۔ پولیس ان کے گھر کی کنیز اور نیب کو ان عزت دار ویڈیروں نے لپیٹ کر اپنی جیب میں رکھ لیا ہے۔

ورنہ امداد متافی جیسا آدمی جیل میں ہوتا جو اس سے پہلے بھی کئ بار خواتین اراکین کی بے عزتی کر چکا ہے آج پھر ایک معزز خاتون رکن سندھ اسمبلی سورٹھ تھیبو کو پاگل کہہ کر ان کی بے عزتی کر دی۔ مختاراں مائ کو اںساف ملا ہوتا تو آج ایک اور بیٹی پنچایت کے شرمناک فیصلے کا سامنا نہ کرتی۔ احتساب کرنے والے کونسا دودھ سے نہاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی احتساب نہی ہوا۔ انہوں نے ہی ایوب خان اوریحیٰ خان کے مارشل لا کو قانونی قرار دیا۔ انہوں نے ہی ضیاالحق کو حکومت کرنے کا قانونی اجازت نامہ فراہم کیا بلکہ منتخب وزیراعظم کے لہو کو ان کے ہاتھوں پر تلاش کیا جاسکتا ہے۔ مگریہ آزاد ہیں۔ انہوں نے ہی مشرف کو آہینی ڈھال دی بلکہ اسے مضید مضبوط بنایا۔ اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کو معطل کرنے والوں میں ایک دو نام پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کے بھی ہیں۔ احتساب تو ایک جج صاحب کا بھی ہونا چاہئے کیونکہ ان کا نام بھی پانامہ لیک میں سانے آیا ہے۔ ایک بات ضرور کہونگا کہ آگے بھی مجھے وقت قریب میں کوئ جمہوری حکومت ایسی نظر نہی آرہی ہے جو اپنا وقت پورا کر سکے گی۔ کیونکہ جمہوری نظام اب کمزور ہو چکا ہے یا کمزور کر دیا گیا ہے۔ اور جمہوری نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائ ہوئی ہے۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل،ایمسٹرڈیم