احتساب اور ووٹ کی اہمیت

Accountability

Accountability

تحریر : محمد ریاض پرنس

ہم سب جانتے ہیں کہ سیاستدانوں کے وعدے کتنے پورے ہوتے ہیںاور ان میں کتنی سچائی ہوتی اب پھر وہی وقت لوٹ کرآگیا ہے اگر ہم ملک کے ساتھ سچا پیار کرتے ہیں تو اب ہمارے پاس ان کا احتساب کرنے کا پورا پورا موقع ہے ۔ ان کو بھی پتہ چلنا چاہئے کہ ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں ان کوکیا دیا ہے اور کس امید سے وہ ہمارے پاس آئیں گے ۔اگر اس بار بھی ہم نے ان کا بائیکاٹ اور احتساب نہ کیا تو ہم کبھی بھی ان کا احتساب نہ کر پائیں گے ۔اور یہ پھر ہم پر مسلط ہو جائیں گے ۔ان جھوٹے سیاستدانوں کو پتہ چلنا چاہئے کہ ہمارے ووٹ کی کیا اہمیت ہے۔

جس طرح موسم بدل رہا ہے اسی طرح ہمارے ملک کے سیاستدان بھی بدل رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے نئے الیکشن 2018ء کے دن نزدیک آ رہے ہیں سیاستدانوں کو بھی عوام نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ ان کو بھی پتہ ہے کہ اب آگے ہماری دال گلنے والی نہیں ۔کیونکہ ان سیاستدانوں نے پیروں کی طرح ہم سب کو بیٹا ہی دیا ہے ۔ اور روز نیا وعدہ دے کر ہمارے ضمیر سے کھیلتے رہے ہیں۔ہر با ت پہ جھوٹ بولنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے ۔ اگرشروع سے ہی عوام سیاستدانوں کا احتساب کرتی تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے ۔اب ایک بار پھر ان سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ شروع ہو گیا ہے ۔پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے اب پھر یہ سب چور مل گے ہیں ۔اپنے حریف کو بھی بھائی بنا لیں گے ۔ کس کی خاطر صرف کرسی اور اقتدار اور عیش و آرام کی خاطر ۔ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ کرسی دلوانے کا حق صرف عوام کے پاس ہے جو اس دفعہ ضرور ان کا احتساب کرے گی ۔ اور اپنے ووٹ کا استعمال درست جگہ پر کرے گی ۔تاکہ جس کو وہ منتخب کریں وہ سیاسی نمائندہ نہ ہو بلکہ عوامی نمائندہ ہو ۔

25جولائی کو میدان سجنے والا ہے اب ہونا تو یہ چاہئے کہ جس طرح عوام کو انہوں نے بیوقوف بنایا تھا ہم بھی ان کو اسی طرح ہی کا جواب دیں ۔کیونکہ ہم کو انہوں اب اس قابل بنا دیاہے کہ بجلی نہ ہو تو ہمارے بچے پڑھ سکتے ہیں ۔کھانا نہ ہو تو ہمارے بچے بھوکے سو سکتے ہیں ۔اور اگر کوئی کیس کسی غریب پرہو تو وہ اندر اور کسی سیاستدان پر ہو تو وہ باہر ۔واہ کیا قانون ہے ہمارے ملک کا۔ہمارے ملک کا یہ سیاسی کلچر بنتا جا رہا ہے کہ غریب کو مار دو اور امیر کو چھوڑ دو۔ کتنی شرم کی بات ہے ۔مگرہم کو شرم آتی کب ہے ۔ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ اور ہم جانتے بھی ہیں کہ ہمارے علاقے کے سیاسی لیڈر ہمارے ساتھ کتنے مخلص ہیں اور ان کے کردار کے بارے میں تو ہم خوب جانتے ہیں کہ اس نے کس کس کا حق مارا ہے اور کس کس کو بیوجہ اندر کروایا ہے مگر الیکشن کے آتے ہی ہمارے اند ر کا ضمیر مر جاتا ہے اور ہم پھر ان سیاستدانوں کی باتوں میں آجاتے ہیں ۔اور گلی گلی ان کے نام کا شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔

پھر ہمیشہ کی طرح حکمرانوں کے وعدوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ پاکستانی عوام نے جمہوریت کو بچانے کے لئے ہمیشہ اپنے اپنے لیڈروں کا ساتھ دیا مگر یہ لیڈر ان کو کیوں بھو ل جاتے ہیں70سال ہونے کو ہیںمگر ہمارے ملک کی بنیادی خرابی یہ رہی کہ سیاسی نظام مظبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو سکا ۔ مگر آج مجھ کو بڑے افسوس اور رنج وغم کے الم میں یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ قائد اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خاں کے بعد ہم کو کوئی اچھا لیڈ ر میسر ہی نہیں آیا جس نے صرف پاکستا ن اسکی بقاء اور سلامتی کے بارے میں سوچا ہو ۔بڑے بڑے لیڈروں ، سیاستدانوں ،جرنیلوں نے ملک پاکستان کی باگ دوڑسنبھالی مگر ان کو کوئی خاص کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ کچھ نے تو کرسی کی حوس کی خاطر پا کستان کو تباہ کر دیا اور کچھ نے اقتدار کی حوس اور بھوک کی وجہ سے ملکی ترقی کودائو پر لگا دیا۔ کسی نے بھی یہ نہ سوچا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کچھ کر لیا جائے ۔ دن گزرتے گئے اور حکمران بھی بدلتے گئے ۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے جنم لینا شروع کر دیا۔ حالات دن بدن خراب ہوتے گئے ۔ امیر دن بدن امیر ہوتا گیا اور غریب دن بدن غریب ہونا شروع ہو گیا۔ غریبوں کے بچے غیروں کے مقروض ہوتے گے اور امیروں کے بچوں کی محفلیں ہوٹلوں اور بازاروں میں جمتی گئیں ۔امیروں کو تو ہر طرح کی معرات دی گئی مگر غریبوں کو دھکے اور وعدے ملے۔ میر ا سوال ان موجودہ حکمرانوں سے یہ ہے کہ انہوں نے امیروں کو نوازنے کے علاوہ کسی غریب ،بیوہ ،لاوارث ،یتیم بچوں کا بھی سوچا ہے کہ ان کو بھی یہ سب معرات ملنی چاہئیں ۔یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں غریب بھی رہتے ہیں یا پھر غریب ہونا جرم ہے ۔

اصل بات یہ ہے کہ ہم کو یہ سیاستدان جھوٹی تسلیاں دیتے رہتے ہیں اور خود ملک کو لوٹ لوٹ کر اپنا بنک بیلنس اور جائیدادیں بنانے کے نشے میں لگے رہتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم پر انکا بھی کوئی حق ہے جنھوں نے ہم کو اس قابل بنایا ۔ اب اگر ہم کراچی کی سیاسی صورت حال دیکھیں تو ہم کو سب نظر آجائے گا کہ وہاں پر کس طرح عوام کو بیوقوف بنا یا جارہا ہے۔ کراچی شہر کو تباہ وبرباد کرنے والے پھر ایک ہی پلیٹ میں کھانے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔دوسری طرف عمران خاں صاحب عوام کو جھوٹی تسلیاں دے دے کر ان کا بھی وقت ضائع کر رہے ہیں اوراپنا بھی کیونکہ عمران خاں کے دائیں بائیں بھی سب چور کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ ان سے ملک کو کیسے بچائیں گے ۔اگر عمران خاں صاحب خود اور اپنی ٹیم کو سب سے پہلے احتساب کے لئے پیش کرتے تو شاید کچھ ملک کا بھلا ہو سکتا ۔ اور عوام بھی ان کے لئے کھڑی رہتی ۔ مگر یہاں تو سب ہی الٹ ہے۔

کوئی بھی ملک کو بچانا نہیں چاہتا بلکہ سب ملک کے معاشی حالات کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اور ایسے سیاستدانوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے جو ڈیمز کے لئے فنڈ نہیں دے رہے اور ابھی تک چند ہی ایسے سیاستدان ہیں جنھوں نے ڈیمز فنڈ جمع کروایا ہے ۔ سب سے زیادہ ڈیمز فنڈ15لاکھ روپے سینٹ چیرمین محمد صادق سنجرانی نے جمع کروایا ہے۔عوام سے التماس ہے کہ جو امیداوار یا پارٹی سربراہ دیا میر ۔بھاشا اور محمڈن ڈیمزکی تعمیر کے لئے سپریم کورٹ کے دیے گے اکاونٹ میں فنڈز جمع نہیں کرواتا اس کا الیکشن میں مکمن طور پر بائیکاٹ کیا جائے ۔اور ہر سیاسی جلسہ میں سیاستدانوں سے سوال کریں کہ کے اس نے ڈیمز فنڈ کیاکچھ جمع کروایا ہے ۔ہم سب کو بڑھ چڑھ کر ڈیمز فنڈ میں حصہ ڈالنا چاہئے تاکہ ملک کی ترقی میں ہمارا بھی حصہ شامل ہو سکے۔

تو خدارا اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو محفوظ ہاتھوں میں دو ۔ تاکہ ہمارا ملک خوشحال اور ترقی کر سکے۔ہمارے ملک میں امن پیدا ہو ۔پاکستانیوں اپنے ووٹ کی اہمیت اجاگر کرو ۔آپ کو پتہ ہو کہ ہمارے ووت میں کتنی طاقت ہے ۔اس لئے اپنا ووٹ صرف پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کیلئے دو۔ووٹ ضرور دو مگر ایسے انسان کوجو چور ،کرپٹ،رشوت خور نہ ہواور جس پر آپ اعتماد کر سکتے ہوں کہ یہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرے گا۔

Muhammad Riaz Prince

Muhammad Riaz Prince

تحریر : محمد ریاض پرنس
موبائل: 03456975786