افغان حکومت اور طالبان کے مابین دوحا میں خفیہ بات چیت

Doha Office

Doha Office

دوحہ (جیوڈیسک) برطانوی اخبار اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خلیجی ملک قطر کے دارالحکومت دوحا میں خفیہ بات چیت ہوئی ہے۔

نہ تو افغان حکومت اور نہ ہی طالبان نے اس بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری کیا ہے۔ اس بارے میں واحد بیان ایک افغان اہلکار کا سامنے آیا ہے جنھوں بتایا ہے کہ افغان انٹیلجنس کے سربراہ معصوم ستانکزئی اس میں شریک تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی قیام امن کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ہیں۔

دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات میں طالبان وفد کی قیادت ملا عبدالمنان نے کی۔ ملا عبدالمنان طالبان کے بانی امیر ملا عمر کے بھائی ہیں۔

اخبار کے مطابق ایک طالبان اہلکار نے امید ظاہر کی ہے کہ ملا عمر کے صاحبزادے ملا محمد یعقوب جلد ہی دوحا میں افغان حکومتی وفد سے مذاکرات کرنے والے گروپ میں شامل ہو جائیں گے۔

طالبان نے حالیہ دنوں میں ہلمند اور قندوز میں افغان افواج پر دباؤ بڑھایا ہے۔

اخبار کے مطابق فریقین کے مابین مذاکرات کے دو دور ہوئے۔ بات چیت کا پہلا دور ستمبر کے اوائل میں ہوا جبکہ دوسرا دور اکتوبر میں ہوا۔ دی گارڈین کے مطابق مذاکرات کے دونوں ادوار میں کسی پاکستان اہلکار نے شرکت نہیں کی۔

ماضی میں افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلق کو دیکھتے ہوئے تو تاثر یہی ہے کہ پاکستان اس سے دور رکھے جانے پر کوئی زیادہ خوش نہیں ہوگا۔

’اس بات چیت سے تو یہی تاثر ملے گا کہ پاکستان کا اثر و رسوخ شاید ختم ہو گیا ہے اور طالبان یا افغانستان کو پاکستان کی اب ضرورت نہیں رہی، وہ خود آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے افغان مصالحتی عمل کے بارے میں سفارتی سطح پر کہتا رہا ہے کہ وہ افغان کی رہنمائی میں ہونے والے کسی بھی مذاکراتی عمل کی حمایت کرے گا۔‘

دوحہ میں طالبان کی ترجمانی ہمیشہ اہم طالبان رہنماؤں نے کی ہے۔

’اہم تو یقیناً ہے اس طرح کا آمنے سامنے آنا اب تک ہم نے محض مری میں دیکھا تھا لیکن اس کے بعد سے جو تیزی سے تبدیلیاں آئیں ملا اختر منصور کی ہلاکت اور چار ملکی گروپ کی ناکام کوششیں سے اسے دھچکا لگا ہے۔‘

ان مذاکرات اہمیت تو بہت ہوگی، گذشتہ برس مری آمنے سامنے ملاقات کے بعد دوسرا موقع ہے جب ایسے ملاقات ہوئی ہے، محض ملاقات ہی بہت بڑی پیش رفت اور کامیابی مانی جاسکتی ہے۔

’طالبان کی قیادت میں تبدیلی اور میدان جنگ میں قندوز اور ہلمند پر دباؤ بڑھانے میں خیال یہ تھا کہ نئی طالبان قیادت وقت لی گی دوبارہ مذاکرات میز پر آنے میں پہلے اپنی گرفت مضبوط کی جائے گی تو ایسے میں کافی اہم ہے۔‘