افغان حکومت سے مذاکرات کی بحالی کیلیے طالبان کے وفد کا خفیہ دورہ پاکستان

Afghan Taliban

Afghan Taliban

اسلام آباد (جیوڈیسک) افغان طالبان کے دورکنی وفد نے افغانستان کی حکومت کے ساتھ براہ راست باضابطہ مذاکرات کی بحالی کی تیاریوں کے سلسلے میں گزشتہ ہفتے پاکستان کا خفیہ دورہ کیا۔ ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وفد کی قیادت قطر میں قائم افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد ستانکزئی نے کی جبکہ وفد کے دوسرے رکن قاری دین محمد تھے۔

یہ دورہ گزشتہ ہفتے اس وقت کیا گیا جب افغانستان میں مفاہمت کیلیے روڈ میپ کو حتمی شکل دینے کے سلسلے میں پاکستان، افغانستان، چین اور امریکا کے حکام کا اجلاس ہوا تھا۔ افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے مابین مذاکرات کیلیے ممکنہ تاریخ طے کرنے کیلئے چہارفریقی مذاکرات 6 فروری کو اسلام آباد میں ہوئے تھے۔

ذرائع کے مطابق افغان طالبان کی ٹیم نے چاروں ممالک کے سینئر حکام کے ساتھ غیررسمی ملاقات کی جوکہ مذاکرات کا حصہ تھی تاہم طالبان وفد کے دورے کی کسی طرف سے بھی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی۔ ذرائع نے دعوی کیا کہ طالبان وفد نے غیررسمی ملاقات کے دوران افغان حکومت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات میں حصہ لینے والے نمائندوں کی فہرست پیش کی اور دوبارہ مذاکرات کیلئے اعتماد کی بحالی کیلیے سازگار ماحول کی تیاری پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

یہ پہلی مرتبہ ہواہے کہ قطر میں قائم افغان طالبان کا دفتر امن عمل کا حصہ بن رہا ہے جسے امریکہ اور چین کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال جولائی میں ہونیوالے امن مذاکرات میں طالبان کے قطر دفتر نے حصہ نہیں لیا تھا۔

جس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے طالبان دفتر کے سربراہ سید طیب آغاامن مذاکرات کے مخالف تھے۔ ملا عمر کی موت کے بعد جب ملا اخترمنصور نے طالبان کی کمان سنبھالی تو طیب آغا نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا اور ملا اختر منصور نے طیب آغا کی جگہ عباس ستانکزئی کو تعینات کیا تھا جو کہ امن مذاکرات کے حامی ہیں۔

ان کی تقرری کامطلب ہے کہ مذاکرات میں افغان طالبان کے قطردفتر کا مرکزی کردار ہوگا۔ بیک چینل سرگرمیوں سے آگاہی رکھنے والے پاکستانی عہدیدار نے بتایاکہ طالبان کے وفد کے دورہ پاکستان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم مذاکرات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اسی عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر مزید بتایا کہ افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے مابین باضابطہ مذاکرات چند دنوں تک متوقع ہیں، پاکستان، امریکہ اور چین بھی اس کا حصہ ہونگے۔