ماضی، حال مستقبل افغانستان ماضی، حال مستقبل

Afghanistan

Afghanistan

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
قوم پرست افغانستان کبھی بھی پاکستان کا دوست نہیں رہا۔ صرف اسلامی افغانستان پانچ سال طالبان کی حکومت کے دوران پاکستان کا دوست رہا ہے۔ قوم پرست سرخ پوش سرحدی گاندھی عبدلاغفار خان صاحب (مرحوم) کا کھڑا ہوا پختونستان کا مسئلہ افغان طالبان نے حل کر دیا تھا اور پاکستان کی مغربی سرحد جوایک عرصہ سے ڈسٹرب تھی محفوظ ہوگئی تھی۔ افغانستان کی ماضی کی بات کریں تو جہادافغان جنگ سے کچھ مدت پہلے جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر خورشید احمد صاحب نے اپنے تھنک ٹینک، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے تحت ،دانشور آباد شاہ پوری اور دودوسرے صاحبان کو اس کام پر لگایا کہ اس امر کی تحقیق کریں کہ دنیا میں کئی مسلمان ملک صلیبیوں کی غلامی سے آزاد ہو ئے مگر ترک مسلمانوں کے وہ علاقے جو ترکی سے چین کے صوبے سنکیاک تک پھیلے ہوئے ہیں وہ آزاد کیوں نہیں ہوئے۔ اِن ریسرچرز نے روس اور ترکی کے دورے کر کے تین کتابیں شائع کیں جنکی روداد کچھ اس طرح ہے۔

ان مسلم علاقوں پر ترکوں کی گرفت کمزور پڑنے کی وجہ سے تقریباً٣٥٠ سال سے زارِ روس کی حکومت اور اس کے بعد اشتراکی روس کی حکومت نے ترک مسلمانوں سے ایک طرف سنکیاک تک اور دوسری طرف افغانستان کی سرحد دریائے آمو تک کے علاقے فتح کرلیے۔ اس کے بعد روس گرم پانیوں تک بڑھنے کی پلائنگ کر رہا ہے۔روسی حکومت کے بانی حکمران ایڈورڈ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ دنیا میں وہ قوم حکمرانی کرے گی جس کے قبضے میں خلیج کاعلاقہ ہو گا ۔اس ڈاکٹرائین کے تحت روس نے گرم پانیوں تک آنے کا منصوبہ بنایا۔ حوالہ ” روس میں مسلمان قومیں” آباد شاہ پوری۔روس نے ا فغانستان میں ظاہر شاہ کے دورحکومت کے دوران کام کرنا شروع کر دیا تھا ایک وقت آیا کہ کابل یونیورسٹی میں اشتراکیوں کا قبضہ ہوا۔ جس کا توڑ جہادی کمائنڈر گل بدین حکمت یار صاحب نے کیا۔اس سے قبل برصغیر پرانگریزحکومت کے دوران اشتراکی روس کی یلغار سے بچنے اور اپنی مغربی سرحد محفوظ کرنے کے لیے ١٨٩٣ء میں افغانستا ن سے بین الاقوامی سرحد کا معاہدہ کیا جو سر مورٹیمر ڈیورنڈ اور امیر عبدلرحمان کے درمیان ہوا۔ مختلف وقتوں میں اس سرحدی معاہدے کی تجدید ہوئی۔ آخر میں١٩٣٠ ء میں بادشاہ نادر شاہ سے ہوئی ۔اسی ڈیورنڈ لین کا قصہ افغانستان کی قوم پرست حکومت نے شروع سے پاکستان کی حکومت کے ساتھ چھیڑے رکھا۔ روسی اثرات اور بھارتی دشمنی اور سرحدی گاندھی غفار خان، جسے افغان قوم پرست بابائے پشتونستان کہا کرتے تھے جس نے پاکستان دشمنی میں پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا اور افغانستان کے شہر جلال آباد میں مدفن ہے کی وجہ سے افغانستان نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

قوم پرست سردار دائود صاحب کے دور حکومت میں قوم پرست ولی خان صاحب نے سردار دائود کو کہا کہ پاکستان کی فوج بھارت سے شکست کی وجہ سے کمزرو ہو گئی اس وقت پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان کو توڑکر پختونستان قائم کیا جا سکتا ہے۔ ولی خان کی پارٹی کے افغانستان میں موجود خود ساختہ جلاوطن سیکر ٹیری اجمل خٹک صاحب جس نے کہا تھا کہ وہ سرخ ڈولی(روس کی مدد سے) میں بیٹھ کر پاکستان آئے گا ۔جمعہ خان صوفی صاحب جو ولی خان کی پارٹی کا کیمونسٹ کارکن تھا۔جو افغانستان میں خود ساختہ جلاوطن تھا۔ سردار دائود خان کا پیغام لے کر پاکستان آیاکہ وہ پختون زلمے کے نوجوانوں کو افغانستان میں فوجی ٹرینینگ دینے کے کے لیے رضا مند ہے ولی خان ان کو افغانستان بھیجے۔ جمعہ خان صوفی صاحب یہ پیغام لے کر پاکستان ولی خان کے پاس آیا۔ ولی خاںنے سردار دائود کے لیے واپسی پیغام میں کہا کہ پشاور سے کچھ پشتون پائلٹ جٹ طیارے اغوا کر کے کابل اُتریں گے ان کو واپس پاکستان کے حوالے نہ کرنا۔ پھر ولی خان نے پختون زلمے اور بلوچ نوجوانوں کو افغانستان فوجی ٹرینیگ کے لیے بھیجا۔ولی خان کے دہشت گردوں نے پاکستان میںدہشت پھیلائی۔ لاہورواپڈا دفتر پر حملہ کیا جس میں درجن بھرلوگ شہید ہوئے۔ حیات محمد شیر پائو کو قتل کیا۔

بلوچستان میں فوج پر حملے کئے۔ اسی لیے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ولی خان پر غداری کا مقدمہ قائم کیا تھا۔ جن کی روداد ولی خان کی پارٹی کے منحرف کیمونسٹ کارکن جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب” فریب ناتمام” میں بیان کی ہے۔روس نے پورے افغانستان کو روشن خیال معاشرے میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر کام شروع کیا تھا۔ روس کی شہ پرد دائود نے ظاہر شاہ کو معزول کر کے افغانستان کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ آ خر کار روس نے دائود کو قتل کروا کر اسی بہانے ببرک کارمل روسی ایجنٹ کو روسی ٹینکوں پر سوار ہو کر کے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ افغانیوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے مدد مانگی تو اس نے در ے سے اسلحہ خرید کر افغانیوں کو دیا۔ افغانیوں نے درے کی بندوقوں سے روس کے خلاف جہادشروع کیا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی مشین کو شکست دی۔ جس کے پاس ایٹمی ہتھیار کے علاوہ ہر قسم کے جنگی ہتھیار تھے ۔ روس جو اپنے بانی لیڈر کا خواب کہ جو قوم خلیج پر قابض ہو گی وہ دنیا پرحکومت کرے گی اور جس نے ترک مسلمانوں سے بہت بڑے علاقے فتح کر لیے تھے سے جنگ شروع کر دی تا کہ قابض روسی فوجوں کو ملک سے باہر نکالے تاکہ وہ پاکستان سے بلوچستان کے راستے گرم پانیوں تک نہ پہنچ سکے۔

اُس وقت دنیا دو بلاکوں کے اندر تقسیم تھی۔ امریکہ نے بھی اس
جنگ میں اشتراکیوں کو شکست سے دو چار کرنے کے لیے تین سال بعد شرکت کی۔ مسلمان علماء نے اس جنگ کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیاکے مسلمان اس جہاد میں شریک ہونے کے لیے افغانستان میں آنے لگے ۔دنیا کے مسلمان ملکوں کے لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس جہاد میں حصہ لیا۔مگر یہ تاریخی جنگ افغانیوں نے خود لڑی۔ لاکھوں شہد ہوئے ، اپاہچمعذور، لاکھوں نے پڑوسی ملک پاکستان اور دنیا میں مہاجرت کی زندگی اختیار کی۔ بلا آ خر روس کو شکت ہوئی ۔افغانی اب تک حالت جنگ میں ہیں مگر زندہ ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ افغان کبھی بھی محکوم نہیں رہے۔ کیونکہ کہسار باقی… افغان باقی ۔اس فتح میں کلیدی کردار جہاد فی سبیل اللہ ، مسلمانوں کے اتحاد اور اسٹنگر میزائل نے ادا کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمانا کے اگر میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے شکست نہ دیتا رہوں تو یہ دنیا ظلم سے بھر جائے گی۔ اس جنگ میں بہت سے معجزے رو پذیر ہوئے راقم کو ایک واقعہ یاد ہے روس کا ایک حاضر سروس کاجنرل جس کی اسٹوری فوٹو کے ساتھ ایک کراچی کے اخبار نے شائع کی تھی۔ وہ تاشقند کی مسجد میں اذان دے رہا ہے ۔اس سے پوچھا گیا یہ کس طرح ہوا آپ حاضر سروس جنرل ہیں آپ کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔ اس نے کہا پرواہ نہیں۔ اسنے اپنے بیان میں کہا کہ میں ایک متعصب عیسائی روسی جنرل تھا۔ میں نے افغانستان میں ہرکت کرنے والی کوئی چیز نہ چھوڑی تھی سب پر بم گراتا تھا ۔ایک دفعہ چند افغان مسلمان قیدی میرے سامنے پیش کیے گئے ۔میں نے سوچا جس طرح عام قیدی ہوتے ہیں اس طرح یہ بھی ہونگے۔ لیکن میں حیران رہ گیا کہ وہ بے خطر مجھے اسلام کی تبلیغ کرنے لگے ۔میرے اندر سے ایک ا نسان جاگ اٹھا اور میں ایمان لے آیا۔ صاحبو! ۔ دنیا نے افغانوں کے خون کی وجہ سے سفید ریچھ سے نجات حاصل کی اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی یورپ کی کئی ریاستیں آزاد ہوئیں۔

دیوار برلن ٹوٹی اور وہ علاقے جو ترک مسلمانوں سے چھینے گئے تھے چھ اسلامی ریاستوں قازقستان، کرغیزستان، اُزبکستان، ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں۔پھردنیا کے چالیس ملکوں کے نیٹو اتحادی ،امریکہ اور پاکستانی لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ عرصہ١٧ سال سے افغانستان پر حملہ ہوئے۔ ظلم کی داستان شروع ہو گئی ہے بلگرام اور گوانتا موبے جیل کے قید ی ان ظالموں کی داستا نیں سنا رہے ہیں۔پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ایک فون کال پر امریکا کے سارے مطا لبات مان لیے ۔جبکہ امریکی خود اپنی کتابوں میں لکھ رہیں کہ ہم تو سمجھ رہے تھے تین چار مطالبات مانے جائیں گے مگر پاکستانی کمائنڈو جنرل نے سارے کے سارے مطالبات مان لیے۔ امریکہ نے تمام افغانستان کو نیست ونابود کر دیا ہے۔ اب پھرامریکا نے بھارت، شمالی اتحاد اور قوم پرست افغانیوں کو ملا کر پاکستان دشمن اشرف غنی حکومت پر قائم کر دی ہے۔ افغانستان سے پھر پہلے کی طرح پاکستان پر دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں۔ ا مریکہ افغانستان سے فرار کے راستے تلاش کر رہا ہے اور اب امریکہ اپنی جنگ کو پاکستان میں لے آیا ہے۔پہلے روس اب امریکا پاکستان کو دھمکی دے رہا ہے۔ڈو مور کی رٹ لگا کر افغان طالبان سے لڑنے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ اگر ٤٠ ملکوں کی نیٹو اتحادی فوجیں افغان طالبان سے نہیں لڑ سکیں اور ا یک ایک کر افغانستان سے نکل گئیں تو پاکستان کی فوج افغان طالبان سے کیوں لڑے۔ افغان طالبان اپنے ملک پر قابض امریکی فوج سے لڑ رہے جو ان کا حق ہے۔پاکستان غیرجانبدار ہے۔افغان طالبان جانیں اور امریکا جانیں۔پاکستان کی مجبوریوں کے باوجودافغان طالبان پاکستان کے دوست تھے اور اب بھی ہیں۔ دو دن پہلے افغانستان کے علما اتحاد نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

امریکا کی افغان جنگ کی وجہ سے ہمارے ملک کو اربوں ڈالر کا تقصان پہنچ چکا ہے ڈرون حملے ہوئے۔ خودکش حملے ہو رہے ہیں۔ نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے ہماری سڑکیں تباہ ہو رہی ہیں،غیر ملکی جاسوس ہمارے ملک میں انسانیت دشمن کاروائیاں کر تے رہے۔ بلیک واٹر دہشت گرد تنظیم ملک دشمن کاروائیاں کر رہی ہے۔پاکستان کے دفاعی اداروں، ایئر پورٹ، مساجد،امام بارگاہیں، بزرگوں کے مزار، ہمارے بازار، کرکٹ میچ کے مہمان،ہمارے سیاسی لیڈر اور ان کے بچے، ہمارے مذہبی رہنما،ہماری بچیوں کے اسکول، کیاکچھ ہے جو تباہ نہ ہو گیا ہو؟ اس پر بھی صلیبی امریکہ خوش نہیں ہے ڈو مور ڈومور کی رٹ لگا رہے ہیں ۔ہمارے سپہ سالار نے امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکی کا صحیح جواب دیا ہے کہ دنیا ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے اور اب پاکستان نہیں دنیا ڈو مور کرے۔ ہم افغان جنگ کو پاکستان میں نہیں لا سکتے۔یہ سب کچھ کیوں ہے ؟ اس لیے ہے کہ ہم اللہ کے فرمان کہ یہود و نصارا مسلمانوں کے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے جب تک مسلمان ان جیسے نہ ہو جائیں ۔اس لیے ہماری درد مندانہ گزارش ہے کہ امریکہ سے دوستی ختم کریں گزشتہ حکومت کی پارلیمنٹ کی قرادا اور دفاعی کمیٹی کی سفار شات اور آل پارٹی کانفرنس کے اعلانیہ پر عمل کریں اور اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کریں ۔ اگرجہادافغان کے ثمرات کی بات کی جائے تونمبر(ا)اس سے چھ اسلامی ریاستیں ،قازقستان،کرغیزستان،اُزبکستان،ترکمانستان،آزربائیجان،اورتاجکستان آزاد ہوئیں۔ نمبر(٢)مشرقی یورپ آزاد ہوا۔ دیوار برلن پا ش پاش ہوئی۔

جرمنوں نے دیوار برلن کا ایک ٹکڑا جہاد کے پشتی بان جرنل حمید گل خان صاحب کو تحفے کے طور پر بھیجاجو آزاد دنیا کی طرف سے پاکستان کا اعزاز ہے۔ نمبر (٣) روس جس نے پاکستان توڑنے میں اپنی ایٹمی گن بوٹ سے پاکستان کی بحری ناکا بندی کر کے بھارت کا ساتھ دیا اس کا بدلہ ہماری بہادر فوج نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں حصہ لیکر بدلہ چکا دیا۔(٤)جہاد افغانستان سے تحریک آزادیِ کشمیر نے زور پکڑا۔نمبر (٥) پوری اسلامی دنیا میں امریکی پٹھو حکمرانوں کے خلاف اسلامی نظام حکومت کے لیے جدو جہد تیز ہوئی۔ ( یہ علیحدہ بات ہے کہ امریکا نے جہادی تحریکوں میںاپنے ٹائوٹ ڈال کر ان کو بدنام کیا) نمبر (٦) ہماری بہادر فوج نے روس کے بانی ایڈورڈ کابلوچستان کے راستے مسلم دنیا کے خلیج کے علاقے تک پہنچنے کے خواب کو چکنا چور کیا۔صاحبو! قوم پرست افغان حکومت نہ ماضی میں پاکستان دوست تھی نہ اس وقت حال میں قوم پرست اشرف غنی افغان حکومت پاکستان کی دوست ہے نہ مستقبل کی قوم پرست حکومت پاکستان کی دوست ہو سکتی ہے۔ہاں طالبان کی اسلامی حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دوست تھی اور انشاء اللہ مستقبل کی طالبان کی اسلامی حکومت ہی پاکستا ن کی دوست ہو گی۔ پاکستان کو امریکی بھارتی چالوں سے خبردار ہو کر افغان طالبان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔ اللہ مثل مدینہ مملکتِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ