دوپہر کی ہنڈیا

Cooking

Cooking

تحریر : ممتاز ملک. پیرس

ہمارے ہاں عام طور پر صبح صبح ہی گھر کی خواتین کی چہل پہل کا آغاز ہو جاتا ہے .کیونکہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے اور اپنے شوہر کو اس کے کام پر روانہ کرنے لیئے ناشتے کی تیاری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے. کیونکہ دن کے کھانے کا وقت عام طور پر ایک ڈیڑھ بجے کا ہوتا ہے تو اس کی تیاری کا آغاز بھی ساتھ ہی ہو جاتا ہے. ایسے میں وہ خواتین جن کی ہانڈی سہہ پہر کے چار بجے تک چڑھ کے ہی نہیں دے رہی یا پکنے پر ہی نہیں آ رہی تو غور کیجئے کہ ماجرا کیا ہے۔

* کیا یہ خواتین اپنے ابَا کے گھر میں بھی چار بجے دوپہر کی ہانڈی چولہے پر چڑھانے ک عادی تھیں؟ تو جواب سو فیصد آتا ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا..
* اب کیا اپنے بچوں کو وہ چار بجے تک بھوکا رکھے گی ؟ جواب.. کبھی ہو ہی نہیں سکتا…

* اپنے میاں کو چار بجے تک دوپہر کے کھانے کے لیے لٹکائے گی ؟ تو جواب ہو گا کہ ہاں ہو سکتا ہے بازاری کھانے کے چسکے میں میاں کو لٹکائے کہ غریب بازار سے ہی کچھ لا کر اسے لذت کام ودہن فراہم کر دے …

* یا پھر اس عورت کو گھرداری کی الف ب کا ہی پتہ نہیں ہے . ایسی عورت کو ہی پھوہڑ اعظم کا خطاب بلا شک و شبہ دیا جا سکتا ہے۔

اب اگر ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ ہانڈی چار بچے کچھ خصوصی مواقع پر ہی چڑھتی ہے تو یقیناً وہ موقع گھر پر خاتون کی ساس یا نند کہ آمد ہی ہو سکتی ہے. اکثر جب چلترباز بہو یا بھابھی اپنی ساس یا نند کو اچھی طرح سے اپنے فائدے میں نیمبو کی طرح نچوڑ لے اور اسے مزید ان تِلوں میں تیل دکھائی نہ دے تو شروع ہوتی ہے مکار بہو کی آخری کاروائی… یعنی کہ وہ ہر روز آٹھ بجے ہونے والا ناشتہ دس گیارہ بجے تک گھسیٹ لے گی یا پھر دوپہر کا کھانا ایک بجے پیش ہونے والا دن چار بجے تک “ہانڈی چڑھاتی ہوں ابھی” کہہ کر آپ کو گیٹ لاسٹ کا پیغام دیتی رہیگی. اس وقت تک کہ جب تک آپ دوبارہ اس کی تجوری بھرنے کا انتظام نہ کر لیں۔

اور پھوہڑ اعظم خواتین کو ایک ہی سبق دیا جا سکتا ہے کہ نالائیقو کل کیا پکانا ہے ایک دن پہلے ہی سوچ کر اس کا سامان (دال سبزی گوشت جو بھی پکنا ہے) وہ منگوا لیا جائے. اور صبح گھر کا ناشتہ نمٹاتے ہی ساتھ یہ دوپہر کی ہانڈی بھی چڑھا دی جائے. ساتھ میں آٹا گوندھنے اور برتن دھونے تک نہ صرف کھانا تیار ہو جائے گا بلکہ آپ کے کچن کی صفائی بھی ایک ہی بار میں ہو جائے گی اور آپ کے باقی گھر کو سمیٹنے کے وقت میں دوپہر کے کھانے سے بے فکری اور وقت کی بچت بھی ہو جائے گی۔

کام کرنے کی ترتیب درست ہو اور نیت کام چوری کی نہ ہو تو گھر کا کام کوئی ہوَا نہیں ہوتا. کہ ختم ہی نہ ہو پائے. سو بہنوں جس کا بیٹا آپ کو ساری عمر کی موج مستی فراہم کر رہا ہے اگر اس کی ماں بہن کبھی آپ کے گھر کچھ روز کے لئے آ ہی جائیں تو انہیں حقیر جاننے کی بجائے ان کی عزت اور تواضع آپ کا فرض ہے. اپنے ہی میکے کو تین سو پینسٹھ دن بھرنے والیو اگر اللہ توفیق دے تو اپنے سسرال والوں کو بھی عزت دیکر دیکھیں اس سے آپ کی عزت میں اضافہ ہی ہو گا کمی کبھی نہی آئے گی.

اکثر اپنے باپ کے گھر میں بیٹھی بوڑھی ہوتی لڑکیاں جب رُل رُل کر وظیفے تسبیحات کر کر کے شوہر پا ہی لیں تو شوہر ملتے ہی وہ وہ پینترے بدلتی ہیں کہ اللہ ہی معاف کرے. ایسے میں ان کے دماغ میں ان کی جاہل ماؤں کا بھرا ہوا یہ خناس کہ” میاں کو قابو میں رکھ بس… باقی جائیں بھاڑ میں ” یا” اب وہ تجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا” ہی ان کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ بنتا ہے. ایسے میں ان کا شوہر کسی مصلحت کی خاطر خاموشی اختیار کر بھی لے تو بھی نہ تو ایسی بیویاں اس کی نظر میں عزت پا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے گھر میں سکون ہو سکتا ہے. ہر مرد کی عام طور پر تین ہی خواہشات ہوتی ہیں۔

Handia

Handia

ایک… اچھا صاف ستھرا گھر کا پکا ہوا لذیذ کھانا, دوسرا… صاف ستھرا سلیقے سے سجا گھر, اور تیسرا…. صاف ستھری اچھا پہنے اوڑھے ہوئے اس کی مہذب بیوی یہ تین چیزیں نہ صرف اس کی تھکن اتار دیتی ہیں. بلکہ وہ ایسی بیوی کی اکثر باتی بھی بخوشی مانتا رہتا ہے. اور اسے ناراض کرنا بھی پسند نہیں کرتا. … جبکہ چار بجے ہانڈی چڑھانے والیاں شوہر کو پاگل بنانے کے لیئے اکثر تعویذ دھاگوں اور بابوں کے حجروں میں ہی لائنوں میں ہی عمریں گزارتی پائی جاتی ہے. لیکن یہ بھول جاتی ہیں کہ جو محبت اور عزت خدمت اور بُردباری میں ملتی ہے وہ ان غلیظ لوگوں اور بابوں کے اڈوں پر کبھی نہیں مل سکتی . ان سے بچیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو صحیح ڈگر پر لائیے۔

تحریر : ممتاز ملک. پیرس