حلقہء فکر و فن کا “آغا شورش کاشمیری” کو خراج تحسین

AGHA SHORASH KASHMIRI

AGHA SHORASH KASHMIRI

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری
حلقہ فکروفن، ریاض کا اجلاس ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کی زیرِ صدارت کاشانہء ادب ریاض میں منعقد ہوا جس میں عہد ساز صحافی، شعلہء نوا خطیب، بے باک شاعر اور نامور سیاستدان آغا شورش کاشمیری کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا.

تقریب کی نظامت وقار نسیم وامق نے کی, تلاوتِ قرآنِ پاک عبدالرزاق تبسم کی تلاوت قرآن پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا ۔ ہدیہ نعت رسول صلعم عابد شمعون چاند نے پیش کیا.

ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے کہا آغاشورش کاشمیری خطابت ۔ صحافت ۔ شاعری اور ادب کے شاہسوار تھے ۔ شورش کاشمیری ایک عہد کا نام ہے جو تاریخ کا درخشاں باب ہے ۔ ان کے خطابات میں الفاظ آبشار کی طرح ان کے منہ سے نکلتے اور سامعین کو مسخر کرتے چلے جاتے تھے ۔ ان کے قلم نے جو لکھا وہ معاصر ادیبوں کو نصیب نہیں ۔ جہاں الفاظ بولتے ہوں ، جملے دہکتے ہوں ، تحریر آتش فشاں ہو ، فکر پختہ اور روشن ہو اور انشاء کے قواعد کی پاسداری ہو ، خیالات کسی بارش کی طرح آتے ہوں، اور الفاظ موتی بنتے چلے جاتے ہوں ، وہاں صاحب قلم جری اور بے باک نہ ہو تو ایسا لکھنا ممکن نہیں ہوتا ۔ یہ جری خطیب اور صحافی حالات اور واقعات کے الجھاؤ کے باوجود اپنی ذات اور شخصیت کا صحیح مشاہدہ کرنے پر اس قدر قادر تھا ، اس کا انداز ان کے اپنے مرثیے سے ہوتا ہے۔

انہیں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں اور ادیبانہ کمال اور خطیبانہ جوہر کا احساس تھا ہی ، لیکن وہ پر وردہ زمانہ یاران آستین بدستاں کے دو گونہ رویوں سے بھی بےخبر نہ تھے ۔ ان کی ذات جرآت اور بے باکی سے لبریز تھی ، وہ غیور اور بہادر انسان تھے ، فرماتے انسان سے ڈرنا ربوبیت کی توہین ہے ۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد سے استقامت و ایثار کے میدان میں غیر اللہ ٹھکرا دینے کا سبق سیکھا اور انُکے اسلوب نگاری اور اعجاز تحریر سے ادائیں سیکھیں۔

AGHA SHORISH KASMIRI

AGHA SHORISH KASMIRI

عالمہ اقبال نے ان کی فکر کو جلا بخشی اور اسلام سے غیر متزلزل وابستگی کا شعور دیا مولانا ظفر علی خان نے شعر گوئی کا ملکہ پیدا کیا اور آشہب خطابت کی شہسواری سکھائی ۔ سید عطااللہ شاہ بخاری نے مجھے عشق رسول اور توحید کی راہ پر ڈالا ، مجھے اپنی نگاہ کے فیض سے بالا کیا اور مولانا ابو الاعلی سے میری عقیدت تھی جن کی فکری بنیادوں پر مسلمانوںُ کا نشاۂ ثانیہ کا سورج طلوع ہو سکتا ہے ۔ ان کے اشعار

ہر دور میں ہر حال میں تابندہ رہوں گا
میں ز ندہ جاوید ہوں ، پائندہ رہوں گا
تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آیندہ رہوں گا

فکروفن کے جنرل سیکرٹری وقار نسیم وامق نے آغا شورش کاشمیری کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آغا شورش اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ تھے ان کی شاعری منظوم تاریخ کا درجہ رکھتی ھے، وہ ادب اور سیاست کو زندگی کے بلند مقاصد اور بلند اقدار سے استوار رکھتے تھے.

لاکھ دیکھا نظر نہیں آتا
تیرے جیسا نظر نہیں آتا
ہم کہیں جس کو دیدہ ور وامق
کوئی ایسا نظر نہیں آتا

محمد امین تاجر نے شورش کاشمیری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ رپورتاژ زندگی انکی نظم و نثر میں موضوع رہی ہے اور انکا ادب و سیاست سے وجدانی رشتہ تھا امین تاجر نے مقررین کے شعری اور نژی انداز عقیدت کی بے حد تعریف کی۔

حلقہ فکروفن کے ناظم الا مورڈاکٹر طارق عزیز نے آغا شورش کاشمیری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا. اور حلقہ فکروفن کی اس کاوش کو سراہا انہوں نےفرمایا شکسپیر کا کہنا ہے کہ جس تنظیم میں فکر اور فن ہو تاہے وہ کامیابی کی منزلیں طے کرتی ہیں۔

بعد ازاں ایک شعری نشست بهی منعقد ہوئی جس میں شعرائے فکروفن عبدالرزاق تبسم، محمد صابر قشنگ، عابد شمعون چاند، ڈاکٹر حناء امبرین طارق اور وقار نسیم وامق نے کلام پیش کی۔

عبدالرزاق تبسم
جذب و وجدان میں یوں رقص لئے ہے
ہر رنگ ہر اک روپ تیرا عکس لئے ہے
مجھ میں موجود نہیں کچھ بھی اپنا
اب میری جان کوئی شخص لئے ہے

محمد صابر قشنگ
مرا قصہ چلے گا عشق کی ارزانی تک
میں ترے ساتھ رہوں گا تری حیرانی تک
ہاں ترے بعد تو کچھ بھی نہیں بچتا مجھ میں
مرے تو ہاتھ میں رہتی نہیں ویرانی تک
میں کئی سال میسر ہوں ابھی لوگوں میں
تو بھی آ نوچ لے مجھ کو مری نادانی تک

عابد شمعون چاند
اب وہ آتے نظر نہیں آتے
اب وہ ناطے نظر نہیں آتے
کیا کھا گئی ہے انہیں بھی فکر معاش
اب تو پنچھی بھی گاتے نظر نہیں آتے
اب تو بچے بھی ریت پر عابد
گھر بناتے نظر نہیں آتے

AGHA SHORISH KASMIRI

AGHA SHORISH KASMIRI

ڈاکٹر حنا امبرین طارق
کوئی صورت تعبیر میرے خواب کو بھی دے
یارب مرے فغاں کو تو اظہار جو بھی دے
ادراک کے سفر میں لفظوں سے میرا رشتہ
مضبوط تر ہے ،تو حد خیال جو بھی دے۔

صدر محفل ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری نے پروگرام پر مفصل تبصرہ پیش کیا اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ دعا کے ساتھ نشست کا اختتام ہوا اور آخر میں مہمانوں کی تواضع پر تکلف کھانے سے کی گئی۔

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری