احسن اقبال پر حملہ اس کی وجوہات اور اس کے اثرات حل کے ساتھ ‎

Ahsan Iqbal

Ahsan Iqbal

تحریر : انجینیر افتخار چودھری

پاکستان کے وزیر داخلہ جناب چودھری احسن اقبال کو گزشتہ روز اقلیتی جلسے میں گولی مار دی گئی اطلاعات کے مطابق آ ہیں ایک گولی لگی جو ان کے کاندھے میں. یں پیوست ہو گءی. انہیں فوری طور پر لاہور منگوا لیا گیا. ہیلی کاپٹر پنجاب کے یر دلعزیز وزیر اعلی نے فورا بھیج دیا. احسن اقبال کو گولی لگنے پر نہ صرف ان کے حلیفوں نے بلکہ سخت مخالفین نے بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے. تحریک انصاف کے چیرمین بھی ان مزمت بیان جاری کرنے والوں میں شامل ہیں. سابق تا حیات نا اہل وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف نے بھی فالحال تک مزمت ہی کی ہے. اللہ تعالی انہیں جلد صحتیاب کرے. اللہ کے یر کام. میں بہتری ہوتی ہے بعض اوقات چھٹے حادثے آپ کو بڑے حادثے سے بچا لیتے ہیں. احسن اقبال اگلے روز اسلام آباد میں اپنی اقامت سعودیہ اور سریعالزبانی کی وجہ سے سپریم کورٹ طلب کیے گے تھے. لیکن اللہ کو منظور کچھ اور تھا. میں نے بھی ان کے اس حادثے ہر دلی رنج و غم کا اظہار کیا ہم جماعتی جہاں کہیں بھی ہوں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ جمعیت نے جو لوگ اس ملک کو دیے ان میں چند کھوٹے سکے بھی نکلے جیسے حسین حقانی جنہیں ننگ ملت کا لقب بھی مل چکا ہے. احسن اقبال بھی سابق جماعتی ہیں ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا ہے وہ اس لحاظ سے سینءر تھے وہ رکن جنسیت تھے جو حامی رفیق امیدوار رکنیت کے بعد کا درجہ ہے. ایسے لوگ پابند صوم و صلوۃ لین دین کے کھرے اور مثالی ہوتے ہیں.

احسن اقبال سے اس لحاظ سے ایک احترام کا رشتہ تھا سعودی عرب مدینہ منورہ جدہ میں ملاقاتیں رہیں جب ہمیں 2002میں دھوکہ دے کر پاکستان بھیجا گیا تو ان سے راہ و رسم بہت اچھی رہی. ایک وقت مجھے پاکستان مسلم لیگ کے میڈیا سیل. میں شریک انچارج بھی نامزد کیا گیا جناب صدیقالفاروق کے ساتھ تھوڑا عرصہ کام کیا. سردار مہتاب عباسی جن سے فیملی مراسم تھے اور ہیں انہوں نے معاشی معاملات ہر توجہ دینے کا حکم دیا جس کی وجہ سے میں نے اسلام آباد کی ایک گاڑیوں کی کمپنی میں نوکری کر لی. جلد ہی جب معاملات سدھرے تو ایک بار پھر متھرا ہوا. احسن اقبال ان دنوں سیکرٹری اطلاعات تھے یہ وہی دور ہے جب ڈاکٹر طارق فضل چودھری اپنی چیک بنکوں کے تھیلوں کے ساتھ ایف ایٹ والی کوٹھی دے کر سید ظفر علی شاہ کو جھنڈی کرانے پہنچے تھے. جنرل مشرف کا دور تھا صحافیوں پر پابندیاں لگائی جا رہی تھیں میں جہاں کہیں احتجاج ہوتا پہنچ جاتا. اس کام کی رپورٹ میاں نواز شریف کو کر دیتا جو ان دنوں جدہ سے لندن پہنچ گئے تھے.

احسن اقبال ان دنوں بھی بڑے ڈیکوریٹڈ ہوتے تھری پیس سوٹ کانوں میں موبائیل کی لیڈیں لگانے مختصر وقت کے لیے آتے چلے جاتے جبکہ میں ایک قدم آگے بلکہ ایک دن تو معروف شاعر جناب احمد فراز کو بھی ہالیڈے ان کے جلسے میں لے گیا. صدارتی محل کے سامنے بھی سخت کرم میں میرے ساتھ گے میں انہیں ان کے گھر سے لے لیتا یہ وہی گھر تھا جہاں سے افتخار عارف وغیرہ نے ان کا سامان اٹھوا کر پھینکوایا تھا. احسن اقبال کو گولی لگنے پر چند ہی گھنٹوں میں سوشل میڈیا پر مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں کءی چینیل تو ان لوگوں کے انٹرویو بھی چلا بیتے ہیں جو اس معاملے جو کسی حساس مسلے سے جوڑ رہے ہیں. سب سے پہلے رات جو جب میں انہیں ہیلی کاپٹر پر سوار دیکھ رہا تھا تو میرے دل میں خیال آیا کہ کاش چھوٹے شہر بھی اس قابل ہوتے کہ ان میں اچھے یسپتال ہوتے اور کم از کم اس شہر نارووال میں ایسا یسپتال ہونا چاہیے جہاں سے احسن اقبال بار بار منتحب ہوتے رہے ہیں.

اس لمبے عرصے میں وہ کوئی چج کا ہسپتال. نہیں بنا سکے جو ان کے اس معمولی زخم کو ٹھیک نہیں کر سکتا. بے جی کو ستر کی دہائی میں گردن توڑ بخار ہوا تو انہیں چار سو کی خطیر رقم دے کر ایمبولینس کر کے باغبان پورے گوجرانوالہ سے میو ہسپتال لاہور لے گے. یہ کوئی پچاس سال پہلے کی بات ہے. یہ سوال پیدا ہوتا ہے گوجرانوالہ میں تو ہسپتال بن گے ہیں جہاں خطیر رقم دے کر مرا ھا سکتا ہے پرائیوٹ ہسپتال تو قصاب گاہیں ہیں. ایسی کوئی جگہ نارووال میں کیوں نہیں .ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بڑے شہروں میں چھوٹے شہر گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔بے ہنگم بے ترتیبے شہر اس قدر تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ انسان حیران ہو کر رہ جاتا ہے پنجاب کے میدان اب مرلوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں ہمیں فلیٹوں کی طرف جانا ہو گا۔وہاں پارکنگ بنائیں جدہ کی طرح ہر بلڈنگ کے جتنے فلیٹ اتنی گاڑیوں کی جگہ۔گولیاں لگیں یا گردن توڑ بخار ایمبولینسیں چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی طرف بھاگ رہی ہوتی ہیں وہاں اتنا رش ہے کہ ایمبولینس پہنچ ہی نہیں پاتی شائد یہی وجہ ہے جناب شہباز شریف نے ہیل بھیج کر اپنے دوست اور ملک کے انتہائی اہم وزیر کو لاہور بلا لیا۔

اس قسم کے کام ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں صاحبزادہ اسحق ظفر بیمار ہوئے تو ہیلی انہیں اسلام آباد لے گیا لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے تم کتنے صاحبزادے اور وزیر ہیلیوں پر لے جائو گے یہ بائیس کروڑ کا ملک ہے خدا را اسے الیٹ کلاس کا بنا کے رکھ دیا ہے آپ لوگوں نے۔کسی کو خیال نہیں کہ اسلام آباد لاہور جیسی سہولیات وہاں چھوٹے شہروں میں بھی ہوں۔آپ حیران ہوں گے کہ اس قسم کی عدم سہولیات نے ایک مافیا پیدا کر دیا ہے وہ ہے ہسپتال مافیا فائیو سٹار ہوٹلوں سے زیادہ کمروں کے کرائے وہی ڈاکٹر جو باہر پانچ سو میں ملتا ہے وہاں دو ہزار روپے میں۔یہاں اسلام آباد میں ایک ہسپتال ہے جو نام تو شفا یابی سے جڑا ہوا ہے ہو سکتا ہے مریض شفاٗ بھی پا جائے لیکن اس کے ہاتھ میں جو بل تھمایا جاتا ہے اس کی بات کر کے لوگوں کے دلوں کو نہیں دکھانا چاہتا خود میرے والد صاحب کا آپریشن لاہور کے ایک ایسے ہسپتال میں ہوا جو ملک کے متعدد مرتبہ اعلی عہدے دار سے جڑا ہے ۔ان کڑھ ڈاکٹر نے گلہ کاٹ کے رکھ دیا جب بلیڈنگ نہیں رکی تو کہا کہ خون کا بند وبست کریں ۔خون کہاں سے لاتے اور میرے والد میرے ہاتھوں میں اس دنیا سے چلے گئے یہ تو اس مافیا کی بات ہے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ ہم گجرانوالہ سے انہیں لاہور لے گئے یہ تسلی تو ہوئی کہ ابا جی کسی ہسپتال میں مرے ہیں۔احسن اقبال کو گولیاں لگیں یا گولی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک کا وزیر داخلہ محفوظ نہیں ہے تو میں اور آپ کیا چیز ہیں۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک نئے دوست راجہ خرم شہزاد نے تصویر بھیجی کہ انہیں گولی لگی ہے اور وہ سٹریٹ کرائم کا شکار ہوئے ہیں۔آج کل گولی تو ایسے ماری جا رہی ہے جیسے چاند ماری ہو۔ہم کس جانب جا رہے ہیں۔

کہاں ہیں وہ دعوے دار کہ ہم اس ملک میں امن لا ئے ہیں مانا کہ دو چار سو نہیں مر رہے لیکن دو چار تو آئے روز آپ کے دائیں بائیں مر رہے ہیں۔سنا ہے ملزم نے ختم نبوت کے غصے میں آ کر گولی چلائی ہے۔حضور اس کی نفیس جدید کٹنگ بتا رہی ہے کہ ملزم ایسا نہیں ہے جامعہ نعیمیہ میں جب جناب نواز شریف کے منہ پر جوتا مارا گیا تو مارنے والے کا حلیہ بتا رہا تھا کہ اسے ختم نبوت کا دکھ ہے یہ تو چھوکرا عاشق رسولﷺ کم اور ایک لوفر آوارہ نظر آتا ہے۔اس دال میں کچھ کالا ہے اور کافی کچھ کالا ہے اس حملے کے پیچھے جو مقاصد ہیں وہ کچھ اور ہیں۔اور یاد رکھئے جو جے آئی ٹی بنی ہے اس کا نتیجہ آنے دیں رانا ثناٗ اللہ نے ہمیشہ کی طرح بونگی ماری ہے اور عابد شیر علی نے بھی۔رانا ثناٗ اللہ کا فرمان ہے کہ ایک شیطان صفت شخص کا ہاتھ ہے۔ہم جانتے ہیں اس شیطان صفت کو بھی اور ان حیوان صفتوں کو بھی بھی ماڈل ٹائون کے چودہ لوگوں کا خون پی گئے اور یہ قوم بھی جانتی ہے کہ آپ کیا کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں۔رانا ثناٗ اللہ کے بس میں ہو تو انھی پاٗ کے رکھ دیں۔پاکستان کو اس وقت داخلی دشمنوں کا سامنا ہے جو اہل اقتتدار کی صفوں میں دکھائی دیتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ نون لیگ پنجاب میں ختم نبوت کے معاملے کے بعد عوام کا سمانا نہیں کر سکتی۔پچھلے دنوں خرم دسگیر بھی اسی قسم کی تقریب میں نہیں شریک ہو سکے۔جوتوں گولیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے۔میں کبھی بھی اس تشدد کا حمائتی نہیں ہوں لیکن یہ کہنا کہ پنجاب میں یہ لہر نئی ہے یہ غلط ہے غازی علم دین بھی اسی لہر کا شکار تھے ممتاز قادری بھی اور بہت سے لوگ۔انگریز نے رنگیلا رسول ﷺ لکھنے والے کو آزادی ٗ رائے کا علمبردار کہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کتے کی موت مارا گیا جس کے بارے میں اقبال نے کہا کہ ترکھانں دا منڈہ ساڈے کولوں نمبر لے گیا۔

دوسرے معنوں میں اقبال نے غازی علم دین شہید کے فعل کو سراہا۔آج اقبال ادھر ہوتے تو اور تواور انہیں جنرل مشرف ہی امریکہ کے حوالے کر کے ڈالر کما لیتا۔ان کی تو بات ہی نہ کریں۔کیا مسلم لیگ نون پنجاب میں انتحابی مہم چلا سکے گی؟یہ ایک نیا سوال ہے۔خرم دستگیر گجرانوالہ جیسے شہر میں جہاں تیس فی صد کشمیری ووٹ ہے وہاں جلسہ اٹینڈ نہیں کر سکے تو دوسروں کے لیے کیا میدان ہو گا۔ممی ڈیڈی لوگ اس ایشو کو نہیں سمجھتے ایک نے تو غازی علم دین کو بھی برا بھلا کہہ دیا وہ پیپلز پارٹی کی ایک آزاد منش خاتون تھیں۔میں نے انہیں کہا بی بی ایسا نہ کرو عاشق رسولﷺ کتے کی موت مار دیں گے ۔سیدھا سا مشورہ ہے کہ اس مسئلے میں لوگوں کو سمجھانے کی بجائے خود سمجھ جائیں جب آپ کے نبیﷺ نے فرمیا ہے کہ تم میں سے کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ مجھے اپنے والدین سے بڑھ کر نہ چاہے۔کر لیں بات دیں گالی کسی کے ابے کو دیکھیں پھر اپنی آنتیں کسدھر ہوتی ہیں چلو ابے کو نہیں کسی کی ماں کو گالی دیں۔یہ چند مٹھی بھر جو تلقین شاہ بنے ہوئے ہیں کہ جی یہ معاشرہ عدم برداشت کا معاشرہ بن گیا ہے۔او اللہ کے بندو نبی کا نام ہو اور اسے برا بھلا کہیں ان کی ختم نبوت کو چیلینج کریں اور کوئی خاموش رہے۔پس چہ باید کرد میں مشورہ دیتا ہوں دو فلائٹیں بک کرائیں عمرہ کریں نبیﷺ کے روزے پر جائیں معافی مانگیں تجدید ایمان کریں اور واپس آئیں۔احسن اقبال کے بیانات دیکھیں کسی طور آپا نثار فاطمہ کے بیٹے کے نہیں لگتے انہیں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔مجھے پتہ نہیں گولی ایک تھی یا زیادہ جان بچی سو لاکھوں پائے۔اللہ تعالی اس ملک عزیز کو فتنوں سے بچائے۔کتنی گولیاں تھیں مجھے نہیں پتہ۔۔۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینیر افتخار چودھری