امداد انسانی پر منعقدہ سلامتی کونسل کا اجلاس تندوتیز مکالموں کی نذر ہو گیا

Security Council

Security Council

حلب (جیوڈیسک) شام کے شہر حلب میں خانی جنگی رکوانے کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس تندو تیز تکرار کا شکار ہو گیا۔

شام میں انسانی امداد کی ترسیل کےلیے منعقدہ اس اجلاس میں روس اور بعض دیگر ممالک کے درمیان گرما گرم مکالموں کا تبادلہ ہوا ۔

اجلاس کے افتتاح پر خطاب کرتےہوئے امداد انسانی کے مشیر اور نائب سیکریٹری جنرل اسٹیفن او برائن نے کہا ہے کہ حلب شہر پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں جہاں معصوم شہری روس اور اسد اتنظامیہ کے حملوں کا بے رحمی سے شکار ہیں۔

او برائن نے کہا کہ جنگ کا خاتمہ اور وہاں انسانی امداد کی ترسیل اقوام متحدہ کا فرض ہے مگر ہمیں ا س سلسلے میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے اجلاس کو خبردار کیا کہ اگر یہ صورت حال جاری رہی تو سلامتی کونسل ایک ” علامت ندامت” بن کر رہ جائے گی لہذا فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔

اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے ویتالی چورکین نے اسٹیفن او برائن کے خطاب پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ ہم یہاں کسی کا وعظ نہیں سننے نہیں آئے اگر یہ کرنا ہی ہوتا تو ہم گرجا گھر چلے جاتے۔

چورکین نے کہا کہ او برائن کا موقف غیرمنصفانہ اور حقائق کی نفی کرتا ہے جس میں انہوں نے حلب میں 8 دن سے جاری جنگ بندی کا ذکر ہی نہیں کیا ۔

چورکین کے ان الفاظ پر امریکی نمائندہ سمانتھا پاورز نے اعتراض کرتےہوئے کہا کہ حکومت روس اس خام خیالی میں نہ رہے کہ جزوی جنگ بندی کے اعلان پر ہم اُس کے احسان مند ہو جائیں گے۔

سلامتی کونسل میں جب اسد انتظامیہ کے نمائندے بشار الجعفری کے خطاب کا وقت آیا تو مغربی ممالک کے نمائندے ہال سے باہر نکل آئے۔