کاش میں کانسٹیبل ہوتا

 Police Constable

Police Constable

ایک غریب یتیم کے محکمہ پولیس جوائن کر لینے کے بعد امیر ترین ہوجانے تک کے سفر پر مشتمل میرے گزشتہ کالم (کاش میں کانسٹیبل ہوتا ) کے آخر میں بات ہو رہی تھی کہ پولیس ملازمین کو اگر ایک پیسہ بھی تنخوا نہ دی جائے تو بھی یہ لوگ اچھا خاصہ گزارا کر سکتے ہیں، جس پر ایک سوال پیدا ہوا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا؟ اس کا جواب تو میرے پاس اُس وقت بھی تھا مگر جگہ کی کمی آڑے آجانے کے سبب میں نے اگلے کالم (یعنی کہ اس کالم ) میں دینے کا وعدہ کیا تھا اسے لکھنا تو کافی دِن پہلے تھا مگر کچھ ذاتی مصروفیات سے جلد فراغت نہ پاسکنے کے سبب آج جب لکھنے کیلئے بیٹھا تو چانک ایک ایسی خبر سامنے آئی جو ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی جانب سے سب انسپکٹر (یعنی کہ اپنے سینئیر )کے گھر سے مقدمہ میں نامزد تین خطر ناک ڈاکو گرفتار کر لئے جانے کے واقع پر مشتمل تھی، جس کی تفصیل میں جانے پر معلوم ہوا کہ انہیں گرفتار کر نے والے اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو اس گرفتاری کے دوران سب انسپکٹر کے بیٹے کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنہ بھی کرنا پڑا۔

جس کا مطلب تھاکہ سب انسپکٹر نے ان سے کالا دھندا کروانے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے گھر سے گرفتار نہ ہونے کی ضمانت بھی دے رکھی تھی، یہ خبر دوسروں کے کیلئے جو بھی ہو مگر میرے لئے بڑی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ مجھے اپنے سوال کا جواب دینے کیلئے درپیش دلائل میں ایک اور کا اضافہ ہو تا ہوا دکھائی دے رہا تھا، اس لئے فون پر معلومات لینے کی بجائے میں خود ہی اُس طرف چل پڑا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا،راستے میں جب ایک چوراہے کے قریب پہنچا تو وہاں پر ناکہ لگائے پولیس اہلکار گاڑیاں کے کاغذات وغیرہ چیک کر رہے تھے اور کاغذات مکمل نہ ہونے پر گاڑیاں تھانے لے جا کر بند کی جا رہی تھیں اور کچھ مختلف قیمتوں کے عوض موقع پر ہی چھوڑی بھی جا رہی تھیں اب جوگاڑیاں تھانے میں پہنچ رہی تھیں ان میں سے کچھ اپنے با اعتماد لوگوں کے ہاتھوں مختلف فنڈز کے عوض جبکہ کچھ سفارشات پر چھوڑی جا رہی تھیں یہ بھی اُن کا بغیر تنخوا کے گزارا کر نے کیلئے کمائی کا ایک طریقہ تھا جسے دیکھتے ہی دیکھتے میرا ایک جاننے والا بھی وہاں آگیا خیریت دریافت کرنے کے بعد میں نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہوں جواب ملا کہ میں نے ایک مقدمہ درج کروایا تھا اُس کی تفتیش کے سلسلہ میں تھانے جا رہا ہوں آپ بھی میرے ساتھ چلیں میں نے کہا کہ ضرور مگر پہلے یہ بتائو کہ یہ مقدمہ کس بات کا اور کیسے درج ہوا جواب ملا جان لیوا حملے کا مقدمہ ہے جسے تھانہ والوں کی ایک بااعتماد شخصیت کے ذریعے دس ہزار کے عوض درج کروایا گیا۔

Accused

Accused

جس کے بعد جرم ثابت ہوجانے کے باوجود بیس ہزار ملزم کو گناہ گار قرار دلوانے کے دیئے، اس کے باوجود پولیس ملزم فریق سے چالیس ہزار لے کر فائنل ضمنی مشقوق لکھ رہی ہے تاکہ کورٹ جاتے ہی اُسکی بیل ہو جائے یہ سب سُننے کے بعد میں نے اُسے جواب دیا کہ میں آپ کے ساتھ چلا تو جاتا مگر میرے وہاں جانے آپ کے معاملات مزید بگڑ جائیں گے یہ سُن کر وہ خاموشی سے اپنی منزل کی جانب اور میں اپنی منزل کی جانب چل دیا، یہاں میں یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ یہ سب تو کچھ بھی نہیں پولیس کے پاس کمائی کے ایسے ایسے ڈھنک ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور یہ سب کچھ کسی ایک تھانہ یا ڈسٹرکٹ میں نہیں بلکہ ملک بھر میں ہو رہا ہے، اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ ایک عام شہری کی حیثیت سے کوئی ایک مقدمہ درج کروا کے یا کسی ایک میں پھنس کر تصدیق بھی کر سکتا ہے، خیر جب میں وہاں پہنچا جہاں واقع مذکور پیش آیا تھا تو دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ خبر تو سچی اور واقع ہی بہت بڑی تھی جس پر کاروائی بھی بڑی ہی ہونی چاہئے تھی، مگر افسوس کہ یہاں جو کاروائی کر رہا تھا وہ بھی پولیس ملازم اور جس کے خلاف ہو رہی تھی وہ بھی پولیس ملازم ہی تھا اس لئے ڈاکوئوں کو گھر میں پناہ دینے کے جرم کو ایک معمولی جرم سمجھتے ہوئے سب انسپکٹر کو صرف لائن حاضر ہی کیا گیا ہے۔

یہ سُن کر میں بڑا حیران ہوا کہ یہ تو ہاتھی کو بوجھ اٹھانے کی سزا دینے کیلئے اُس پر چیونٹی چڑھانے کے برابر ہے اتنے بڑے جرم کی اتنی معمولی سی سز ؟ جس کا جواب لینے کیلئے ایک ڈرامائی انداز میںجب میں ڈی پی او آفس پہنچا تو ڈی پی او کے کمرے کے باہر گھڑے اردلی نے مجھ سے میری شناخت پوچھی تو میں نے اپنا ڈیوٹی پریس کارڈ یا وزٹنگ کارڈ دینے بجائے اسے اپنا قومی شناختی کارڈ تھما دیا جسے دیکھتے ہی جواب ملا کہ صاحب ! یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ پاکستانی ہیں میرے شناخت مانگنے کا مقصد ہے کہ آپ کوئی سیاستدان ہیں یا کوئی رپورٹر شپوٹر؟ اور کس سلسلے میں ملنا چاہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ حضور میں تو ایک مزدور آدمی ہوں میری چوری ہوگئی ہے اور تھانے والے میری بات نہیں سُن رہے اس لئے میں نے ڈی پی او صاحب سے مل کر تھانہ میں ایک فون کروانا ہے جس سے میرا کام ہو جائے گا لہذا مجھے اندر جانے دو جواب ملا کہ صاحب ایک میٹنگ میں مصروف ہیں فارغ ہو لیں پھر بھیجتا ہوں اتنے میں ڈی پی او کے کمرے سے چند ایک سیاستدان اور ساتھ اُن کے چند ایک پالتو نکلتے ہوئے دیکھنے کے بعد میں وہاں سے واپس لوٹنے لگا تو مین گیٹ پر مجھے میرا ایک جاننے والا مل گیا، کہتا کہ خان صاحب آج آپ ڈی پی او آفس خیر تو ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں اس اس سلسلے میں آیا تھا؟ میری اس بات پر مجھے جواب ملا کہ خان صاحب اگر یہ خبر نشر یا پرنٹ نہ ہوتی تو شاید یہ چیونٹی بھی کبھی نہ چڑھائی جاتی کیونکہ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں، میں نے اس بات کا ثبوت مانگا جو جواب ملا کہ اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ جس ASI نے ان ڈاکوئوں کو پکڑنے کے بعد خبر میڈیا تک پہنچائی، ساتھ اُسے بھی لائن حاضر کر دیا گیا ہے کیونکہ اس کم بخت نے اسے اپنی بہن تسلیم کرنے کی بجائے اس کے پالتو کتے صرف پکڑے ہی نہیں بلکہ میڈیا کے سامنے ننگے بھی کر دیئے جس سے عوام کے سامنے پولیس کے کمائی کر نے کے دیگر طریقوں کے ساتھ ساتھ ڈاکوئوں کے ذریعے کمائی کر نے کے اس خفیہ طریقے کا پردہ بھی چاک ہو گیا۔

یہ سُن کر میں نے سمجھا کہ شاید یہ سیاسی عناصر بھی اسی ہی بات کا ماتم کرنے آئے ہوں اور ان کے ساتھ میں بھی اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے اپنے سوال کا جواب لئے اپنی بے بسی پر ماتم کرتے ہوئے واپس لوٹ آیا ہوں اور اس کے ساتھ ہی اگلے کالم تک کیلئے اجازت چاہوں گا، اپنا اور اپنے اہل و عیال کا بہت بہت خیال رکھیئے گا اور ساتھ دعائوں میں مجھے بھی یاد رکھئے گا (فی ایمان ِللہ)۔

Muhammad Amjad khan

Muhammad Amjad khan

تحریر: محمد امجد خان
Email:Pardahchaak@gmail.com
Mob No For Reedars:03143663818