حلب سے سینکڑوں شہریوں کا انخلا، فوج کی پیش قدمی

Aleppo

Aleppo

حلب (جیوڈیسک) اطلاعات کے مطابق شام میں عسکریت پسندوں کے قبضے کے جنگ زدہ شہر حلب سے سینکڑوں افراد اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کر ان علاقوں میں جا رہے ہیں جو سرکاری فوجوں کے کنٹرول میں ہیں۔

برطانیہ میں قائم شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے گروپ’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس’ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں تقریباً چھ سال سے جاری خانہ جنگی کے بعد حلب سے کم ازکم 400 افراد بھاگ کر مسکان حنانو کے علاقے میں چلے گئے ہیں جو اب سرکاری فوجوں کے کنٹرول میں ہے۔

شامی گروپ کے سربراہ رامی عبدالرحیم نے کہا ہے کہ مشرقی حلب سے 2012 کے بعد سے لوگوں کے انخلا کا یہ پہلا ایسا واقعہ ہے۔

شام نے کہا ہے کہ اس کی فورسز کو جسے روس کی بھرپور مدد حاصل ہے حلب کے ایک اہم علاقے حنانو پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ انہوں نے 13 روز کی شدید جنگ کے بعد عسکریت پسندوں سے یہ علاقہ واپس لیا ہے۔

خبروں کے مطابق آبزرویٹری نے کہا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق باغیوں کے کنٹرول کے مشرقی حلب میں ابھی تک ڈھائی لاکھ افراد پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ فوج کے انجنیئرنگ یونٹ حنانو سے بارودی سرنگیں اور دوسرا دھماکہ خیز مواد صاف کر رہے ہیں، جنہیں باغیوں نے نصب کیا تھا۔

سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز نے حنانو سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنے کے بعد اس پر پوری طرح قبضہ کر لیا ہے۔

مغربی تجزیہ کارکئی دنوں سے حنانو کی اہمیت پر زور دے رہے تھے جو مشرقی حلب کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس پر حکومتی فورسز کے قبضے سے باغیوں کے شمال میں ان کے کنٹرول کے علاقوں سے رابطوں کو کاٹا جا سکتا ہے۔

حلب پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے شام اور روس کی فورسز شدید بمباری اور فضائی حملے کرتے رہے ہیں، جنہیں وہ باغیوں کے خلاف کارروائی کا نام دیتے رہے ہیں لیکن اس سے شہری آبادی کو بھی نقصان پہنچا۔

مغربی حکومتیں اور اقوام متحدہ نے حلب پر حملوں کو انسانی بحران اور کم ازکم ڈھائی لاکھ شہریوں کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ سفارت کار اور انسانی حقوق کے ادارے دونوں یہ کہہ چکے ہیں کہ ماسکو اور دمشق کومشرقی حلب میں اپنی کارروائیوں کی بنا پر جنگی جرائم کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔