اللہ سے ڈرو

ALLAH

ALLAH

تحریر : مقصود انجم کمبوہ
ایک بزرگ چوک میں بیٹھا زارو قطار رورہا تھا لوگ اپنی اپنی گاڑیوں پر جارہے تھے ٹو ڈی ، پیجارو کلٹس اور ٹیوٹا گاڑیاں فراٹے بھر رہی تھیں ہر شخص اپنی دھن پر سوار نظر آرہا تھا بڑے بڑے ریسٹورانوں پر امیر زادے اور امیر زادیاں خوردونوش میں مصروف تھیں خریدو فروخت کا سلسلہ جاری و ساری تھا ٹی وی چینلز پر اپنی اپنی پسند کے پروگرام دیکھے جارہے تھے عورتیں گلوں میں دوپٹے ڈالے بال بکھیرے سڑکوں پر رواں دواں تھیں بعض جوڑے ڈرنکس شاپ پر اپنی اپنی پسند کے مشروب پی رہے تھے بے فکری کا عالم تھا ایسے لگ رہا تھا کہ یہ بے فکری کا سفر کبھی بند ہونے والا نہیں ہے موسم سے انجوائے کر نے والے جوڑے چوک میں گول نما پارک میں بیٹھے اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے کچھ چسکیاں بھر رہے تھے اسی اثنا میں ایک نوجوان بزرگ کے قریب جاکر اس سے پوچھنے لگا کہ اے بزرگ “تم رو کیوں رہے ہو “کیا آپ کا کچھ گم ہوگیا ہے بزرگ نے ٹھنڈی آہ بھری اور نوجوان سے کہا “بیٹے میں اس لئے رورہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف کرنا چاہتا ہے مگر لوگ معافی مانگنا نہیں چاہتے۔

ایسے لگ رہا ہے جیسے ان لوگوں کو موت کی فکر ہی نہیں یہ لوگ بے فکری کے عالم میں اللہ تعالیٰ کو بھولتے جا رہے ہیں انہیں کسی کی کوئی فکر نہیں کچھ دنوں کے بعد وہی بزرگ قبرستان میں بیٹھا زاروقطار رہ رہا تھا تو وہی نوجوان ادھر سے گذرتے ہوئے اس بزرگ کے پاس جاکر پوچھنے لگا کہ اے بزرگ خیر تو ہے رونق بھرے چوک میں بیٹھے بھی رورہے تھے اور اب ویران جگہ پر بھی زاروقطار روتے جارہے ہو۔ اس موقع پر بزرگ نے کہا کہ اب لوگ معافی مانگ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے پر تیار نہیں قبروں میں عذاب خداوندی جاری ہے متعدد کو آگ لگی ہوئی ہے تو بعض کو کوڑے لگ رہے ہیں چیخ وپکار کا عالم جار ی ہے امیر زادے اور امیر زادیاں رو رو کر کہہ رہی ہیں کہ ہماری غربت پر کوئی رحم کھانے والا نہیں ہمیں معلوم نہیں تھا کہ قبر میں اس قسم کا معاملہ پیش آئے گا ہم یہ بتا نہیں سکتے کہ ہمارا امتحان کب تک جاری رہے گا بزرگ نے کہا کہ اے نوجوان ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے دنیا میں ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے کی انتہا کر رکھی تھی انسان کو انسان نہیں سمجھتے تھے۔ اپنے مخالفوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔

شباب و کباب کی محفلیں سجانا ان کا وطیرہ تھا بڑے بڑے ہوٹلوں اور کلبوں میں شرکت فخر سمجھتے تھے مری کی پہاڑیوں پر جگہ جگہ تعمیر کردہ چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں جورات کو روشنیوں میں چمک دمک رہے ہوتے تھے میں امیروں کے نوجوان جوڑے کئی کئی روز لطف اندوز ہوا کرتے تھے ساحل سمندر پر بنے محلات میں راتیں گذارنے والے اور والیوں کی قبر کے عذاب میں مبتلا کی چیخ و پکار آرہی تھی ایسے لوگ بھی تھے جو سیلابوں اور زلزلوں کے علاقوں میں قائم کلبوں اور اڈوں پر داد عیش دے اور لے رہی تھیں۔

Hazrat Mohammad PBUH

Hazrat Mohammad PBUH

ایک دفعہ امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محفل لگی تھی تو محفل میں بیٹھے ایک صحابی نے امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا “اے پیارے نبیۖ کیا وہ بستی بھی ملیا میٹ ہو سکتی ہے جہاں نیک لوگ رہتے ہوں اور عبادات میں مصروف ہوں آپۖ نے ارشاد فرمایا ہاں وہ بستی بھی ملیا میٹ ہوسکتی ہے وہ اس لئے کہ جہاں بے غیرتی و بے شرمی عا م ہوجائے بے حیائی کے خلاف کوئی بولنے والا نہ ہو عالم دین چپ سادھ لیں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوسکتا ہے ہمارے پیارے نبیۖ کی زوجہ مطاہرہ کا ارشاد ہے کہ جہاں زنا عام ہوجائے وہاں اللہ کا عذاب آسکتا ہے قارئین ہم سب کو اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا ہو گا اپنے ملک عزیز کے بڑے بڑے شہروں اور سیاحتی وادیوں میں ہونے والی کالی کر توتوں کا جائزہ لینا ہوگا پانامہ لیکس کی دلدل میں دھنسے منحوس چہروں کا عملی مشاہدہ کرنا ہوگا لندن ، دبئی میں بڑے بڑے محلوں میں رہنے والوں کے شب و روز کا بھی پتہ لگانا ہوگا کیا ہم نے یہ تونہیں سمجھ لیا کہ ہم امام الانبیاء محمد ۖ کے اُمتی ہیں اور ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا یہ قطعی ممکن نہیں ہمارے ہاں آنے والے زلزلے ، سیلاب اور دہشت گردی میں ہونے والی تباہی و بربادی بھی اللہ کی ناراضگی کے باعث ہے۔

مگر افسوس کہ ہم بے فکری کے عالم میں پڑے آنکھیں اور کان بند کئے ہوئے ہیںاور زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنا اپنا فرض ادا کریں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر نے کی سبیل پیدا کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی قبروں میں پڑے سانپوں ، بچھوئوں اور کیڑوں کی غذا بن جائیں وقت بڑی تیزی سے گذرتا جارہا ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو اور اللہ تبارک تعالیٰ سے معافی مانگ کر اس کے پیارے نبیۖ کی صحیح انداز میں غلامی کریں پھر یہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا تو رونا ہی رہ جائے گا بابا فرید کی محلے دارنیوں نے فرید کی والدہ سے پوچھا کہ آپکا فرید سارا سارا دن درودِ پاک پڑھتا ہے رات کو مصلے پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے روتا ہے جبکہ ہمارے بچے سارا دن گلی میںگُلی ڈنڈا اور اِل کانگڑا کھیلتے ہیں فرید کی ماں ہمیں یہ تو بتا کہ آپ کے فرید میں کیا رکھا ہے۔

فرید کی ماں نے کہا اے محلے دارنیوں رب العزت کی قسم جب تک میں باوضو نہ ہوجائوں فرید کو دودھ نہیں پلاتی یہ صرف فرید کا کمال ہی نہیں یہ اس مقدس دودھ کا کمال ہے جو فرید کی رگوں میں حرکت کررہا ہے ایسی مائوں سے ولی، قطب اور غوث ہی پیدا ہونگے ہمارا حال یہ ہے کہ نماز کے وقت کمپیوٹر اور موبائل ہمارے مشاغل ہوتے ہیں کئی ایک نوجوان کھیلوں میں مصروف ہوتے ہیں نماز کی کسی کو فکر نہیںہوتی فیس بُک پر بیٹھے ہمیں دین و دنیا دونوں بھول چکی ہوتی ہے فیس بُک پر بے ہودگی کا عالم ہمارے سروں پر سوار ہوتا ہے ہم بُرائی کے سمندر میں ڈوب کر سب کچھ بھول چکے ہوتے ہیں۔

Maqsood Anjum

Maqsood Anjum

تحریر : مقصود انجم کمبوہ