اللہ کا احسان ۔۔۔ رمضان شریف

Allah

Allah

تحریر: محمد وقار
اللہ سبحان و تعالیٰ کے اپنے بندوں پر بے شمار احسانات ہیں اس کی کریم ذات نوازنا نہیں چھوڑتی لیکن بندہ غافل ہوجاتا ہے مگر وہ رب ذولجلال اپنی مخلوق پر فضل کئے جاتا ہے اپنی خلق کو مواقع دئیے جاتا ہے کہ وہ اپنے رحمان خالق کی نعمتیں سمیٹ لے۔رب جل مجدہ الکریم کے بے انتہا عنایات میں سے ایک ماہ رمضان المکرم ہے یہ مہینہ اسلامی کیلنڈر کا 9واں ماہ ہے۔رمضان کی برکتیں و فضائل سے استفادہ پانے کے لیے مومنین کو اس کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے اور جب یہ ماہ آہ پہنچتا ہے تو ایمان تازہ ہوجاتے ہیں یکجہتی کو توقیت ملتی ہے کارِ خیر میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ہر جانب نور ہی نور پھیل جاتا ہے۔رمضان کی آمد سے پہلے ہی ذوق و شوق سے استقبال ِ رمضان کی تیاریاں اوج پر ہوتی ہیں اور اس ماہِ عظیم کی رعنائیوں کو بٹورنے کی چاہ ہر بچے ،بڑے اور بوڑھے میں جگمگاتی ہے اور نور سے فیض پانے کی امنگیں زور پکڑتی ہیں ،ماہِ صیام ہی وہ ماہ ہے جس کا تذکرہ قرآن الفرقان میں کیاگیا اس کی افادیت و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

رمضان آنے سے قبل ہی فہرستِ طعام مرتب کر لی جاتی ہے سموسے ،پکوڑے ،دہی بھلے اور للچاہٹ سے بھری کھانے کی اشیاء کو اس لسٹ میں شمول کیا جاتا ہے بہترین سحری و افطاری کے لئے پلان بنا لیے جاتے ہیں خوش لباس نظر آنے کے لیے خاص اہتمام کیا گیا ہوتا ہے عطر سے لپٹی خوشبودار ٹوپی فضاء میں مہکا رہی ہوتی ہے۔غفلت میں گناہ سرزد کرنے والے اذہان میں یہ سوچ پروان چڑھ جاتی ہے کہ اس رمضان اپنے کبیرہ گناہوں کی اپنے خداتعالیٰ سے معافی طلب کرنی ہے،درود وسلام کے غلغلوں میں سب کچھ لبھا اٹھتا ہے اور ہر کسی کی سعی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بد اعمالیوں پر اظہارِ ندامت کرے ۔رمضان ہی وہ ماہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا جب شعبان المعظم آپہنچتا تب ہی سرکارِ دو عالم ۖ کمربستہ ہوجاتے اور رمضان کی تیاری شروع فرما دیتے یعنی روزے رکھتے عبادت میں بہت زیادہ مشغول رہتے۔آپ ۖ نے اس بہترین ماہ کو اپنی امت کے لئے گناہوں سے نجات کی نوید قرار دیا ہے ،جو صدقِ دل سے اپنے سغیرہ گناہوں کی معافی کا اپنے رب کے حضور خواست گزار ہوگا یعنی توبہ کرے گا اور سچے دل سے روزے رکھے گا تو اس کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔اس ماہ میں عبادت گزاری کرنا زکوة و صدقہ دینا ستر درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔”اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ” (القران)۔رمضان المبارک میں روزے رکھنے کا مقصد تقویٰ اختیار کرنا ہے۔

چغل خوری،بددیانتی،بدگمانی ،بداعمالی سے دریغ کرنا یعنی اپنی تمام حس کو حیاء نصیب کرنا رسول ِ اکرم ۖ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے۔صوم گناہوں سے اجتناب کا وسیلہ ہے یعنی کوئی بھی غلط حرکت کرنے سے پہلے انسان کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اس بابرکت ماہ جس میں اسے جہنم سے نجات کے وافر مواقع دیئے گئے ہیں اس میں بدفعالی کرنا کتنی سخت سزا کی موجد بنے گی۔رمضان واحد اسلامی مہینہ ہے جس کا نام خود قرآن میں ربِ باری تعالیٰ نے بتایا ہے۔رمضان میں عبادات وسیع حد تک کی جاتیں ہیں لیکن افسوس کہ ہم کوتاہیوں سے باز نہیں آتے عبادت گزاری میں کمی شیطانی وسوسوں کی بنا ء پر نہیں ہوتی کیونکہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے۔اس نفاست بھرے ماہ میں ہم اپنے نفس کو قابو میں رکھنے میں ایک بڑی حد تک کامیاب ہوتے ہیں لیکن گمراہی بھی کہیں باقی رہتی ہے جیسا کہ چند اشخاص روزہ تو رکھ لیتے ہیں لیکن نماز ادا نہیں کرتے ،بعض سوتے رہتے ہیں اور کچھ کی زبان کی تیزی و گالم گلوچ بڑھ جاتی ہے ۔کتنے دُکھ کی بات ہے کہ مجھ سمیت کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تراویح ادا ہی نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو محض آٹھ پورے سال بعد ایک ماہ ایسا آتا ہے جس میں ہم قرآن ِ پاک کی مکمل تلاوت سنتے ہیں اور اپنی ارواح کو منور کرتے ہیں۔

Ramadan Mubarak Kareem

Ramadan Mubarak Kareem

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رمضان میں بیشتر مسلمان نیکی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس مہینے کو اس کے شایانِ شان ایک معظم مہمان کی طرح گزارتے ہیں ،ملال ہے تو یہ کہ استقامت و ثابت قدمی وطیرہ نہیں بنتی عادت میں مسلمانی رچ بس کیوں نہیں جاتی۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین وہ ہیں جنہوں نے ٹیلی ویژن پر رمضان نشریا ت کی بنیاد رکھی اور ان کا علم بڑا باوثوق ہے جس کاہر مسلق کے علماء اعتراف کرتے ہیں ماضی میں ان سے غلطیاں و خطائیں ہوئیں جن کی وہ صدق ِ دل سے اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ کرچکے ہیں پچھلے سال ان کے پروگرام میں ان کا موجودین سے بدتمیزی سے پیش آنا لوگوں پر گراں گزر اکیونکہ مذہب سے واسطہ رکھنے والے فرد کو یہ زیب نہیں دیتا تھا جواب میں انہوں نے اسے فن ٹائم کہہ کر جان چھڑائی اب اُن سے ایک منفرد اور معترف رمضان نشریات کی امید کی جارہی ہے اور انشاء اللہ اُن پر قوی یقین ہے کہ وہ اپنی اچھائیوں کو ایک غلط حرکت جو ان سے غیر دانستگی میں ہوئی اس سے ضائع نہیں کریں گے اور ناظرین کے لیے ایک انتہائی دلچسپ اور معلوماتی پروگرام لے کر حاضر ہونگے۔ رمضان المبارک انعامات سے لبریز ہے تو اس مہمان سے ہم اپنا تازہ کامل ایمان ہی کیوں نہ انعام کی صورت میں حاصل کرلیں۔

رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ووسرا مغفرت اور تیسرا جہنم کی آگ سے نجات کا ہمیں چاہیے کہ ہم ان تینوں سے مستفیس ہوں اور پوری لگن و تجسس سے ان کو اللہ کی پسندیدہ راہ پر چلنے کا آلہ کار بنا لیں۔رسولِ خدا ۖ کا فرمان ہے کہ جب تو روزہ رکھے تو لازم ہے کہ تو اپنے کانوں ،آنکھوں،ہاتھوں اور تمام اعضائے جسم کو اللہ کی ناپسندیدہ باتو ں سے روک لے ۔ آپ ۖ نے رمضان کو اپنی امت پر اللہ کا احسان قرار دیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ صدقہ زکوة بس ضرورت مندوں کو دیں گداگروں کو نہ دیں عمومی جواب یہ ملتا ہے کہ اللہ بس دینے والے کی نیت دیکھتا ہے مگر اس پر میں ایک اعتراض یہ اٹھاؤ ں گا کہ ان گداگروں کے مافیاء سرگرم ہیں تو ہم انہیں پختہ کرنے میںاس لحاظ سے کردار ادا کر رہے ہیں کیوں نہ یہ راشن و رقم دیکھے بھالے سفید پوش لوگوں تک پہنچائے جائیں جو اس کے حقدار ہیںنہ کہ غیرحاجت مند گروہ کودینا موزوں ہے۔

جہنم سے آزادی کا تیسرا عشرہ ہم میں سے اکثر لوگوں کاعید کی شاپنگ میں بسر ہوتا ہے بس رمضان سے اُداسی کی ایک جعلی سی شکل کافی نہیں بلکہ ہمیں اس متبرک ماہ کو ایک اچھے انداز میں اگلے برس تک کے لیے الوداع کہنا چاہیے اور بخشش کی رات یعنی تاک راتوں میں رب سے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اشک بہا کر اپنے کیے پر شرمندگی کے ساتھ دوزخ سے نجات کی التجا ء کرنی چاہیے سچا جذبہ ایمانی ناگزیر ہے۔

Mohammad Waqar

Mohammad Waqar

تحریر: محمد وقار
(YCCP)