ابابیلوں کے پتھر کس پر؟

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : شاہ بانو میر

ابابیلوں کے پتھر کس پر؟

(اللہ سے مدد کی دعا )

“”رب انی مغلوب فانتصر

میرے رب میں بے بس ہوں تو میری مدد کر””

نواز شریف میرا رہنما نہیں نہ ہی کبھی سپورٹ کیا

مگر

غلط فیصلے پر قلم اٹھانا ہے

کیونکہ

قرآن ہاتھوں میں ہے جس کا تقاضہ ہے

ظلم کے خلاف حق کا کلمہ بلند کرو

“” ڈرنا اللہ سے ہے لوگوں سے نہیں “”

شروع کرتے ہیں اللہ سے مدد مانگتے ہوئے

وطن عزیز میں !! اس ڈائن سیاست نے گزشتہ کچھ سالوں میں بہت تباہی مچا دی

سیاسی شور کے نام پر مشہوری کے نام پر بہت نام کما لیا سب نے

ایک ٹکے کا فائدہ نہ عوام کو اور نہ ہی نئی نسل کو

کیا دیا اس قوم کو ؟

بے انصافی !!! اداروں کے ساتھ مل کر سازشیں اور ظلم یکطرفہ؟

جب ظلمت چھا جاتی ہے تو عقل سمجھ سب شیطان تباہ کر دیتا ہے

منصف ہی انصاف نہیں کر پاتے

کیوں؟

اس لئے کہ یہ اللہ کا طے شدہ نظام ہے یونہی زیر و زبر کر کے اپنا حق واضح کرتا ہے

انصاف درج ذیل اعداد کی طرح ہے

سنتے ہی ایک ہی جواب ذہن میں آئے

2+2=4

کسی ذی شعور سے پوچھ لیں یہی جواب ملے گا

مگر

جب دو میں دو ملا کر “”پھر”” تین ارد گرد سے “” غائبانہ”” شامل کریں تو جواب کسی صورت 4 نہیں ملے گا

کیونکہ مزید 3 کی موجودگی سے جواب 4 نہیں آسکتا

انصاف کیسا تھا جب ایمان دلوں میں زندہ تھا

جب سجدہ صرف اللہ کے گھر جا کر ہوتا تھا

چوکھٹ چوکھٹ نہیں

اسلامی فتوحات کا طاقتور دور ہے

عمر بن خطاب کی لشکر اسلامی کے سپہ سالار کو تاکید ہے

کہ

کسی بھی غیر اسلامی علاقے میں داخلے سے پہلے وہاں میغام بھیجنا اور انہیں سوچنے کی مہلت دینا

وہ اسلام قبول کر لیں تو درست ورنہ پھر مدت گزرنے کے بعد یلغار کر لینا

اسلامی لشکر کا سپہ سالار مسلسل فتوحات سے قدرے مغرور ہو جاتا ہے

اور

امیر المومنین کی ہدایت کو فراموش کر کے ثمر قند کے سر سبز و شاداب علاقے میں داخل ہو قبضہ کر لیتا ہے

ایک پادری جو اپنی بے بسی جانتا ہے ایک موہوم سی امید کے ساتھ امیر المومنین کو خط بھیجتا ہے

قاصد خط لے کر جاتا ہے متن پڑھ کر خلیفہ وقت ایک خط لکھ کر اس کے حوالے کرتا ہے

کہ

پادری سے کہو یہ خط سپہ سالار کو بھجوا دے

پادری خط کے متن سے مایوس ہوتا ہے سپہ سالار کو لعن طعن نہی ڈانٹ پھٹکار نہیں

سادہ حروف میں چند جملے کہ

تمہارے خلاف اس پادری کی شکایت آئی ہے

اس لئے چاہیے کہ تم اپنے لشکر میں سے کسی متقی کو قاضی مقرر کرو اور فیصلہ کرو

دو گھنٹوں کے اندر قاضی چن لیا جاتا ہے اور سپہ سالار اور پادری اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں

پادری کا اعتراض یہ تھا

کہ ہمیں وقت جو کسی بھی علاقے پر حملہ آور ہونے سے پہلے دیا جاتا ہے وہ نہیں دیا گیا

نہ ہی ہمیں پوچھا گیا کہ

ہم اسلام قبول کرتے ہیں یا نہیں

لشکر اسلام براہ راست طاقت کے نشے میں چور نہتے لوگوں پر قابض ہو گیا

مسلمانوں نے مقامی لوگوں سے خرید کر اپنی جائیدادیں بنا لیں

نئے کاروبار شروع کر دیے

ہم نے تو سنا تھا اسلام ظلم نہیں کرتا تو کیا یہی اسلام ہے؟

قاضی نے سپہ سالار سے تصدیق چاہی

اس نے اثبات میں جواب دیا

کہ

ہاں یہ تو میں نے کیا ہے

قاضی نے حکم دیا

کہ

شام ہونے سے پہلے پہلے مسلمانوں کی فوج یہاں سے کوچ کر جائے

دنیا نے حیرت سے انگلیاں دانتوں تلے داب لیں

جب شام تک تمام بازاروں سے کاروبار سمیٹ کر گھروں کو خالی کر کے

مسلمان لشکر گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا

اتنا آسان بر محل اور مکمل انصاف کب کسی نے دیکھا تھا

ان کے جاتے ہی جیسے شہر ویراں ہو گیا

اور

پادری سمیت ساری بستی کو اب ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت ستانے لگا جو اعلیٰ حسن اخلاق کا تھا

لوگو دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور پادری کو کہنے لگے کہ انہیں واپس بلاؤ

ہرکارے دوڑے اور مسلمانوں کو واپس بلایا گیا ان کے آتے ہی ساری بستی نے “”اسلام”” قبول کر لیا

یہ تھا اسلام کا اصل انصاف بر وقت مدلل سادہ حتمی شفاف

ایک انصاف آج ہم بھی دیکھ رہے ہیں

جس کی شفافیت پر سیاہی خود قانون دان ہی پھیر کر اعلان بغاوت کر رہے ہیں

ملک میں سیاسی طوفان ہی طوفان ہے

اور

ہر طوفان غرقابی لاتا ہے

سیاسی تاریخ ہے

اس ملک کی منصفی نے جب کسی کو نشان عبرت بنانا ہو تو اس کی ہستی سے لے کر اس کی نسلوں تک کو خوار کیا جاتا ہے

مگر

نتیجہ ہر بار یہی سامنے آیا

کہ

نہ وہ سیاستدان مٹتا ہے اور نہ اس کی سوچ نہ اس کا خاندان

یہ تاریک تاریخی فیصلے کسی زیرو کو ہیرو بنا دیتے ہیں

ایک اور طبقہ ہے ملک میں

جن کو ماں باپ کامیاب کام پر بٹھائیں تو وہ دنوں میں ان کی ذاتی شوخیوں کی نظر ہوکر اجڑ جاتا ہے

یہ بس جاتے ہیں ادارے ویراں ہو جاتے ہیں

شور صرف شور

کل تک جن کو ہزار لعن طعن ہوتی تھی آج ضرورت پوری کرنے کیلیۓ ان کے ہی گوڈے گٹوں میں بیٹھ کر

اپنے کمزور وجود کو مضبوط بنانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے

سیاسی جوڑ توڑ بھی خوب ہیں

بظاہر ملک کو فائدے کا نعرہ لگا کر

سب کے سب ایک دوسرے سے فائدے لے رہے ہوتے ہیں

چاندی دوغلے لوگوں کی جو ہر طرف سے مال بٹورتے ہیں

وہ جانتے ہیں کہ کس کو کہاں فٹ کر کے کیش کرنا ہے اور اپنا کمیشن بنانا ہے

آج پھر سامنے

وہی چوھدری وہی ٹوانے وہی وٹو وہی مزاری وہی لغاری وہی دولتانہ وہی بگٹی سب ساتھ مل گئے آکر

نمائش کے دلدادہ یہ دولتمند جو ذاتی تشہیر کے حریص ہیں

کیا ملک میں نئی سوچ لائیں گے ؟

جمعہ آرہا ہے

نواز شریف سزا ملنے کے بعد پاکستان آ رہے ہیں

سیاسی عوامی قائد بن کر بیٹی کے ہمراہ دلیرانہ قدم اٹھاتے ہوئے وطن واپس آ رہے ہیں

فیصلہ کن موڑ

نواز شریف کو پتہ ہے اس ملک نے کسی وفادار کے ساتھ وفا نہیں کی

دوسری طرف کوئی بہادری کا دعویٰ کرتا ہے اور ادارے کی آڑ میں چھپتا ہے

عوام خوش آمدید کیوں نہ کہے اس عوامی رہنما کو

وہ جانتی ہے کہ

اس سجے سجائے ملک کی آسان ماحول میں باگ ڈور سنبھالنا بہت آسان ہے

حالانکہ

ملک کی ترقیاتی اسکیموں پر دن رات محنت کسی اور کی اور اجارہ داری طاقتور اداروں کے تعاون سے کسی اور کی؟

بالکل ویسے ہی جیسے

ایک عورت غربت میں شوہر کا ساتھ دے دن رات محنت کرے اور شوہر کو کامیابی سے ہمکنار کرے

جب کامیابی ملے تو کامیاب شوہر پر قبضہ کوئی عورت کر لے

ملک میں ہر الیکشن کے وقت بد زبانوں کو تلاش کیا جاتا ہے

کچھ انعام و اکرام کچھ فائدے دے کر

مخالفین کے دکھ رو کر ان کو استمعال کیا جاتا ہے

قلم وصولیاں کر رہے ہیں اور مغّلظات لکھ رہے ہیں سیاسی زبانیں اول فول بک رہی ہیں

یہ برا حال اس وقت ملک کا ہے

کئی سالوں سے جاری توہین کا اب جواب دیا جا رہا ہے

اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا وقت آچکا

یہ قوم صابر ہے مگر منتقم بھی بہت ہے

زبان کا ہتھیار پڑھے لکھوں کا تھا

اگر

معاملہ بگڑا تو ہتھیار زبان کا نہیں فولاد کا ہوگا

سیاسی زیر و زبر سے ملک میں سیاسی عدم توازن پیدا کر دیا گیا

ملک کی داخلی سلامتی کو شدید خطرات عجلت پسندوں کی جلد بازی کا نتیجہ ہے

جس کا خمیازہ محفوظ گھروں میں بیٹھے سیاستدانوں کو نہیں عام عوام کو کرنا ہوگا

ملک میں سیاسی حبس کی کیفیت ہے جیسے سیاسی طوفان کی آمد آمد ہو

سیاسی ابابیلیں ملک کی فضا میں پرواز کر رہی ہیں

فضا تاریخی تاریک ہوئی جا رہی ہے

اب شائد

سیاسی ابابیلیں ہی آکر اس ملک کو سیاسی ابرہہ سے نجات دلوائیں

سیاسی ابابیلیں کس پر برسائیں گے پتھر؟

اِک ذرا انتظار

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر