اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حلیہ مبارک

Muhammad Pbuh

Muhammad Pbuh

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل، میانوالی

جب حسن تھا ان کا جلوہ نما انوار کا عالم کیا ہو گا
ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے دیدار کا عالم کیا ہو گا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ”قسم ہے روزِ روشن کی اور رات کی جب وہ سکون کے ساتھ چھا جائے نہ آپ کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو چھوڑا اور نہ ہی ناراض ہوا اور ہرآنے والی گھڑی پہلی سے یقینابہترہے“۔(سورة الضحیٰ پارہ 30)

یوں توسارے نبی محترم ہیں مگرسرورِانبیاءتیری کیابات ہے رحمتِ دوجہاں اِک تیری ذات ہے اے حبیب خداتیری کیابات ہے

اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کی رشدوہدایت کے لئے کم بیش ایک لاکھ چوبیس ہزارانیباءعلہیم السلام کومبعوث فرمایا۔جنہوں نے بنی نوع انسان کی راہنمائی کی۔رب تعالیٰ نے سارے انبیاءکومعجزات عطاکیے پَرجناب احمدمجتبیٰ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوسراپامعجزہ بناکربھیجا۔سب انبیاءعلہیم السلام رحمت لے کرآئے۔پَرقربان جاﺅں جناب احمدمجتبیٰ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس پرجوسارے جہانوں کے لئے سراپارحمت بن کرتشریف لائے۔ یوںتو ا س دنیامیں ہزاروں حسین آئے ۔حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کودیکھ کرمصرکی عورتیں اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھتی ہیں ۔تذکرہ حسنِ یوسف علیہ السلام کاپھرکبھی آج ہم لجپال نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حسن وجمال کاتذکرہ کرتے ہیں۔

حسن ِیوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری آنچہ خوباں ہمہ دارندتوتنہاداری

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم قدمبارک میں نہ زیادہ لمبے تھے اورنہ پست قدبلکہ میانہ قامت تھے ۔جب کسی طویل القامت کے ساتھ مل کرچلتے تواس سے بلندنظر آتے اوربسااوقات دوبلندقامت آدمیوں کے درمیان چلتے توان سے بلندترنظرآتے تھے۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ساتھ چلنے والے سے بلندقامت دکھائی دیتے ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم درمیانہ رفتارسے چلتے تھے ۔صحابہ کرام علہیم الرضوان فرماتے ہیں ہم میں سے تیزچلنے والابھی آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم سے آگے نہیں نکل سکتاتھا۔اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ”بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی ہے“۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جسم اطہرمیں فربہ پن نہ تھا۔جسم مبارک دبلامگرخوبصورت تھا۔چہرہ انوربالکل گول نہ تھابلکہ اس میں کسی قدر گولائی تھی۔

حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کوچاندنی رات میں دیکھاتوکبھی میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف دیکھتااورکبھی چاندکی طرف آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت سرخ لباس پہنے ہوئے تھے۔توآخرمیں نے یہ فیصلہ کیاکہ وہ چاندسے بڑھ کرحسین ہیں۔(ترمذی شریف،مشکوٰة ) حضرت جامع بن شدادرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص جس کانام طارق تھااس نے ہمیں بتایاکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مدینہ طیبہ میں اسوقت دیکھاجب میں انہیں نہیں جانتاتھا۔میں مدینہ طیبہ سے باہرایک جگہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اورفرمایا ”کیاتمہارے پاس کوئی چیزہے جسے تم فروخت کرناچاہتے ہو“۔توہم نے عرض کی جی ہاں یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !ایک اونٹ ہے جسے ہم فروخت کرناچاہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس اونٹ کی قیمت دریافت فرمائی توہم نے ایک مقدارکھجوروں کی بتائی کہ ہم اتنی کھجوروں کے عوض یہ اونٹ فروخت کریں گے ۔توآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایامجھے منظورہے اورآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اونٹ کی مہارپکڑی اورفرمایاکہ کھجوریں تمہیں پہنچادی جائینگی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اونٹ لے کرچلے گئے اورہم نے آپس میں گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ہم نے اپنااونٹ اس شخص کودے دیاہے۔جسے ہم جانتے تک نہیں ۔ ہمارے ساتھ ایک بوڑھی خاتون تھی جب اس نے ہماری یہ گفتگوسنی توکہنے لگی تم اونٹ کی فکرمت کرو”میں اونٹ کی قیمت کی ضامن ہوںمیں نے اس کے چہرہ کوچودھویں رات کے چاندکی طرح چمکتادیکھاہے۔ایسے حسین چہرے والاتم سے کئے گئے وعدے کوضرورپوراکرے گا۔چنانچہ جب اگلی صبح ہوئی توایک شخص کھجوریں لے آیااورکہنے لگامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمہاری طرف بھیجاہے ان کھجوروں میں سے کھابھی لواوراپنے اونٹ کی قیمت بھی پوری کرلو۔(مواہب لدنیہ )

سیدنابراءبن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے سوال کیاکہ کیااللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاچہرہ انورتلوارکی طرح صاف تھا۔توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا”وہ چاندکا ٹکڑاتھا“ (بخاری،شمائل ترمذی)حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ خوشی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ انورسے نورکی شعاعیں پھوٹنے لگتی تھیںاورچہرہ اقدس یوں لگتاتھاجیسے چاندکاٹکڑاہے۔اورہم آپ کی حالت سرورکواس سے پہچان جاتے تھے۔(بخاری ومسلم )آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاسایہ مبارک زمین پرنہ پڑتاتھا۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ”آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاسایہ مبارک نہیں تھاجب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سورج کے سامنے کھڑے ہوتے توآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ انورکی چمک ودمک اورضیاءاورنورانیت سورج کی ضیاءونورانیت پرغالب آجاتی اورجب کبھی چراغ کے ساتھ کھڑے ہوتے توآپ کی ضیائیں چراغ کے نورپرغالب آجاتیں“۔

حضرت شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ ایک مرتبہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجھے زیارت ہوئی تومیں نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !کہ مصری عورتوں نے جب حُسن ِ یوسف کودیکھاتواپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے مگرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کودیکھ کرکسی کی حالت ایسی نہیں ہوئی۔توآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ”میراجمال لوگوں کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے چُھپارکھاہے اگروہ ظاہرہوجائے تولوگوں کی حالت اس سے بھی زیادہ دارفتہ ہوتی۔جیساکہ یوسف علیہ السلام کودیکھ کرہوتی“۔

حسنِ یوسف پہ کٹیں مصرمیں انگشت زناں سرکٹاتے ہیں تیرے نام پرمردان ِ عرب
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کارنگ مبارک سفیدسرخی مائل تھا۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کارنگ روشن اورچمکدارتھااورآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاپسینہ گویاموتی تھااورکسی دیباوریشم کے کپڑے کومیں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک ہتھیلیوں سے نرم نہیں پایا۔اورمیں نے کوئی ایسامشک وعنبرنہیں سونگھاجس کی خوشبوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسم مبارک کی خوشبوسے بڑھ کرہو۔(بخاری،مسلم )حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کارنگ مبارک سفیدتھاجس پرسرخی جھلکتی تھی جیسے چاندی پرسونے کاپانی چڑھایاگیاہو۔مدینہ طیبہ کی گلیاں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پسینہ مبارک کی خوشبوسے معطرہوجاتی تھیں۔

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاپسینہ مبارک خالص کستوری سے زیادہ پاکیزہ اورمہک والاہوتا۔حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب کسی راستہ سے گزرتے پھرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعدجوبھی اس راستہ سے گزرتاتوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پسینہ مبارک کی خوشبومحسوس کرلیتاکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ادھرسے تشریف لے گئے ہیں۔(مشکوٰة شریف)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضرہوکرعرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !کہ مجھے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے اورمیں چاہتاہوں کہ آپ میری معاونت فرمادیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”کل میرے پاس آنااورایک کھلے منہ والی بوتل اوردرخت کی ایک چھوٹی سی لکڑی ہمراہ لانا“۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیںکہ آپ نے اس لکڑی کے ساتھ اپنی کلائیوں سے پسینہ پوچھناشروع فرمایااوربوتل میں جمع فرمانے لگے حتیٰ کہ وہ بھرگئی ۔پھرآپ نے فرمایااس کولے جااورگھروالوں سے کہناجب خوشبولگانے کاارادہ ہوتواس لکڑی کوبوتل میں ڈبوکر بدن پرلگائیں ان کے لئے عظیم خوشبوثابت ہوگی۔جب اس گھروالے اس خوشبوکوبدن پرلگاتے توسب اہلِ مدینہ اس خوشبوکوسونگھنے آتے بلکہ اس گھروالوںنام ہی”خوشبووالے لوگ“پڑگیا۔حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک روزنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے گھرتشریف لائے اوردوپہرکے وقت قیلولہ فرمایاچونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوخواب میں بہت پسینہ آیاکرتاتھاتومیری والدہ نے جن کانام ”ام سلیم“ہے شیشی لے کرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاپسینہ مبارک لے کراس میںجمع کرنے لگی ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھ مبارک کھل گئی ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”اے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا!کیاکررہی ہو۔عرض کیایارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کاپسینہ مبارک جمع کررہی ہوں۔تاکہ میں بطورِ خوشبواستعمال کروں کیونکہ اس کی خوشبوسب سے زیادہ بہترہے۔(مسلم شریف)

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گیسومبارک نہ بالکل پیچداراورنہ بالکل سیدھے تھے بلکہ قدرے گھنگریالے تھے۔حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انسؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بالوں کے بارے میں دریافت کیاتوآپؓ نے فرمایاآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بال رجل(نرم)تھے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بالوں میں کثرت سے کنگھی کیاکرتے تھے۔

چشمان مقدس نہایت سیاہ تھیں اورپلکیں درازتھیں۔جوڑوں کی ہڈیاںجسیم تھیں دونوں شانوں کی درمیانی جگہ پرگوشت تھا۔جسم اقدس پرزیادہ بال نہ تھے ۔بلکہ سینہ اقدس سے ناف مبارک تک بالوں کی پتلی لکیرتھی۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ پاﺅں پرگوشت تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب چلتے توقدموں کوقوت کے ساتھ اٹھاتے ۔ایسے لگتاکہ بلندی سے نیچے کی طرف اُتررہے ہیں ۔جب کسی کی طرف متوجہ ہوتے ۔توپورے بدن کوپھیرکرتوجہ فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان ”مہرنبوت“تھی۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاتم الانبیاءتھے ۔طبیعت مقدسہ سب سے زیادہ نرم اورقلب اطہرسب سے زیادہ سخی تھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا”کیاتم جانتے ہوکہ سب سے بڑاسخی کون ہے صحابہ نے عرض کیااللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم بہترجانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”سب سے بڑاسخی اللہ ہے اورپھراولادِ آدم میں سب سے بڑاسخی میں ہوں“۔(مشکوٰة )

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔”پیشانی مبارک کشادہ اوربھنویں ملی ہوئی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بینی مبارک ایسی نورانی اورروشن تھی کہ دیکھنے والاجب تک بغورنہ دیکھے یہی گمان کرتاتھا۔کہ آپ کی بینی شریف بلندہے ۔حالانکہ بلندنہ تھی ۔بلکہ یہ بلندی نورکی تھی جوہرایک ش ¿ے کونمایاں دکھاتا۔سیدناجابرؓ فرماتے ہیں کہ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فراخ دہان تھے“(صحیح مسلم)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کواس طرح قہقہ لگاکرہنستے نہ دیکھاتھاجس سے لہوات نظرآجائیں“۔(بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بول وبراززمین اپنے اندرسمالیتی تھی ۔روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کابول شریف پی لیاتھاتواس کے جسم سے ہمیشہ خوشبوپھولتی رہی حتیٰ کہ اس کی اولادمیں کئی نسلوں تک خوشبوباقی رہی ۔(مدارج النبوة) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابوسفیان کے (قافلہ کی شام سے)آنے کی خبرپہنچی توحضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایاحضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہوکرعرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ اگرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیں سمندرمیں گھوڑے ڈالنے کاحکم دیں توہم سمندرمیں گھوڑے ڈال دیں گے اگرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیں برک الغمادپہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں توہم ایسابھی کریں گے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لوگو ں کو بلایالوگ آئے اوروادی بدرمیں اترے ۔پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:یہ فلاں کافرکے گرنے کی جگہ ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم زمین پراس جگہ اورکبھی اس جگہ اپنادستِ اقدس رکھتے حضرت انس ر ضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن دورانِ جنگ ) کوئی کافرحضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بتائی ہوئی جگہ سے ذرابرابربھی ادھرادھرنہیں مرا۔ (رواہ مسلم،ابوداﺅد)

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گستاخ کوزمین بھی قبول نہیں کرتی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جوحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے کتابت کیاکرتاتھا وہ اسلام سے مرتدہوگیااورمشرکوں سے جاکرمل گیااور کہنے لگامیں تم میں سب سے زیادہ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوجاننے والاہوں اورمیں ان کے لئے جوچاہتاتھالکھتاتھا سووہ شخص جب مرگیاتونبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایااسے زمین قبول نہیں کرے گی حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایاوہ اس جگہ آئے جہاں وہ مراتھاتودیکھااس کی لاش قبرسے باہرپڑی تھی ۔پوچھااس(لاش)کاکیامعاملہ ہے؟لوگوں نے کہاہم نے اسے کئی باردفن کیامگرزمین نے اسے قبول نہیں کیا(رواہ مسلم ،احمدبن حنبل)

اللہ رب العزت ہم سب کے صغیرہ وکبیرہ گناہوں کومعاف فرمائے ۔بروزِقیامت آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین

Hafiz Kareem Ullah Chishti

Hafiz Kareem Ullah Chishti

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل، میانوالی
03336828540