اللہ میں صبر کروں گی

Allah

Allah

تحریر: شاہ بانو میر
اقراء بسمہ ربکّ الذی خلق،، پڑھ اپنے ربّ کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا کئیر اینڈ کیور فاؤنڈیشن کی جانب سے حساس موضوعات پر مبنی کتاب اللہ میں صبر کروں گی کیلیۓ کچھ خیالات یہ آفاقی پیغام پہلا انسانیت کو دیا جانے والا سبق تھا کہ شعور کے ساتھ تہذیب کے ساتھ اگر زندگی گزارنی ہے تو پڑھنا ہوگاـ تا کہ ذہن کو جِلا ملے روح کی طہارت ہو اور دل کا زنگ اترے تب کہیں جا کر انسان اپنے اصل بنانے کے مقصد کو سمجھ سکتا ورنہ تو آج کی دنیا کی طرح بالکل جانوروں جیسی زندگی کہ اپنا کھانا پینا اپنا نام مقام حیثیت کا رونا اور دوسروں کے دکھوں غموں سے قطعی بے خبر آج کیا ہم انسان کہلانے لائق ہیں کہ ایک طرف تو دنیاوی آسائشوں کی بہتات ہو اور دوسری جانب ضروریاتِ زندگی کے بھی لالے پڑے ہوںـ زندگی کی ہر ضرورت کیلیۓ سسکنا اور سہک سہک کر زندگی گزارنے کا رواج انہی ممالک میں ہیں جہاں نظام نا انصافی پر مبنی ہےـ

آج کی دنیا میں کوئی انسان اپنے بچوں کی فکر سے ہٹ کر اپنے گھر بار کی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اگر کسی کارِ خیر کا سوچتا ہے اور عملی طور پے اس کو سامنے لاتا ہے تو ایسے میں پڑھے لکھے مہذب معاشرے تو اُس انسان کی سوچ کی بہت قدر کرتے اسے اور اس کے افکار کو اس کی جانب سے پیش کی گئی انسانیت کی حفاظت کیلیۓ تجاویز کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے آہ مملکتِ پاکستان افسوس آج اپنے اصل مقام سے پیسے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئیـ یہاں آج آیان جیسی تو لاکھوں کی شاپنگ کر کے پیشی کیلیۓ جاتی ہیں دوسری جانب ایسے افراد جن میں ایک نام اظہر محمود صاحب کا ہے ـ جو انسانیت کو بچانے اور گھروں میں مسلط پوت کے تاریک سایوں کو قدرے پرے دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیںـ ان کو بہت بھاگ دوڑ کرنے پر بھی وہ مضبوط اور متوازن ساتھ میسر نہیں آتے جو دوسرے ممالک میں غیر اسلامی سوچ رکھنے والے کرتےـ

Prevention  Thalassemia

Prevention Thalassemia

اظہر محمود صاحب کی کتاب اللہ میں صبر کروں گی اس کا عنوان ہی دل جیسے مٹھی میں لے لیتا ہے کیونکہ تصویر ساتھ ایک دکھی مایوس ماں کی اور بچے کی ہے بچہ جو تھیلسیمیا کے مرض میں مبتلا ہےـ ایسی اور کئی سچی کہانیاں اور حقیقی کردار جو زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑ رہے ہیںـ یہ کہانیاں ہماری خواتین و حضرات کے دلوں کو قدرے گداز کر کے ان بچوں کیلیۓ متحرک کرتے ہوئے ان کی سوچ میں نرمی لائیں گےـ خون سال مین دو بار کسی صحتمند انسان کیلیۓ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ـ جبکہ دوسری طرف کسی ماں کی اداس آنکھوں میں اپنے چراغ کی ٹِمٹماتی لو کو بڑھانے کا باعث بن سکتی ہےـ آپ اعلیٰ انسانیت کے درجے پر پہنچ جائیں گےـ ایسی کتابیں تو آج پاکستان میں لکھی ہی نہیں جا رہیںـ کیونکہ ہماری نازک مزاج خواتین پڑھ کر ہائی بلڈ پریشر اور ٹینشن کا شکار ہو جاتی ہیںـ

لیکن ایسی مصنوعی زندگی اور مصنوعی سوچ کو اب ختم کر کے ہمیں تحریکی انداز اپنانا ہوگا ـ سیاسی تحریکیں صرف مقاصد کا حصول ہیں شہرت نمائش کیلئے لیکن انسانیت کا شعور بیدار کرنے کیلیۓ ہمیں گھر گھر سکول سکول گلی گلی سادہ لوح عوام کو جو توہمات کا شکار ہیں اور خون دینے کو نجانے کونسا “” ہوّا “” سمجھتے ہیں ـ انہیں اگر سیاست کے نام پر مشتعل کر کے گھروں سے نکالا جا سکتا ہے تو کیوں نہیں شعورِ حیات کیلئے ان کو جگایا جا سکتا ہے؟ خُدارا !! اس ملک میں آج کوئی بھی با مقصد عملی قدم کسی بھی مسئلے کیلیۓ نہیں اٹھاتا آج اگر اظہر محمود اس مرض کو اسکی سنجیدگی کو اور اس سے لاحق خطرات کو بزریعہ کتاب آپ تک پہنچا رہے ہیں تو ازراہِ کرم زندہ قوموں کی طرح اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دیں اس کتاب کو خریدنے کا اور زیادہ تعداد میں خریدنے کا ارادہ کر لیںـ

اس کو بانٹیں یہ صدقہ جاریہ ہے آپ چلے جائیں گے لیکن آپ کی دی ہوئی اس کتاب کو پڑھ کر جس نے ان بچوں کیلیۓ مدد کی یا ان کو خون کی بوتل دی تو وہاں دیکھئے گا کیسے نیکیوں کا پلڑا جھکا ہوا ملتا ـ کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی شخصیت کو بہتر بنا کر آپ کو اپنے لئے ہی نہیں بلکہ دوسروں کیلیۓ کارآمد بناتی ہے ـ انسانیت کے درد کو ان لوگوں کے درد کو جن کے پاس وسائل نہیں اور وہ اس مرض میں مبتلا اپنے بچوں کو لمحہ لمحہ مرتے سسکتے دیکھتے ہیں ایسی ماں کا حال وہ نہیں جان سکتا جس نے بچے کو کسی بے بسی میں نہیں دیکھا میں ایک ذہنی معذور بچے کی ماں ہوں ـ اپنے بچے کی تکلیف کو اس ،کی خاموشی کو اس کی خاموش زندگی کو بہت تکلیف دہ سمجھتی تھی لیکن جب اُس ماں کو پڑھا کہ اس کے دو بچے اس موذی بیماری سے تو چلے گیے اور تیسرا بھی اسی میں مبتلا ہے اور اس کی مالی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہےـ

Blood

Blood

وہ گھروں میں مزدوری کر کے کچھ ماہ بعد اپنے بچے کیلیۓ زندگی خریدنے سنٹر جاتی ہے
ذرا اپنے پاس بیٹھے پیارے بچوں کو دیکھ کر ایک منٹ کیلئے اس ماں کا سوچیں دل میں درد پیدا ہوا تو مُبارک ہو احساس یہ ہوا کہ ایسے اداروں کی مدد کر کے دوسروں کے پھول کھلے رکھنے ہیں ـ مبارک ہو کسی کو خون دینے کا جزبہ پیدا ہوا مبارک ہو اور اگر اس کتاب کو زیادہ تعداد میں بحالی شعور کیلیۓ اپنے دوست احباب میں بانٹنے کا خیال راسخ ہوا تو آپکو نجانے اس سوچ کے پیدا ہونے سے شروع ہونے والی نیکیوں کا کوئی شمار ہے؟ آئیے احتساب کریں مصروفیات کو کم کر کے اپنی ذات اپنے گھر اپنے بچوں سے ذرا ہٹ کر اس فرض کو یاد کریں جو اللہ پاک نے بطورِ انسان ہمارے ذمے لگایاـ

آئیے اظہر محمود صاحب کے ادارے کے ساتھ مل ،ر عملی طور پے کام کریں دامے درمے سخنے جس ملک میں ایک ماڈل کی آواز پر عوام کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا کیا ہمارے ان معصوموں کی زندگی بچانے کیلیۓ خون کی طویل قطاریں نہیں لگ سکتیں ؟ انشاءاللہ ہم زندہ قوم ہیں اور اپنے بچوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں آئیے ہم سب مل کر خود رضاکار بنیں اور دعائیں لیں تا کہ ہمارے بچے ان کے صدقے میں صحتمند تندرست رہیں آئیے مل کر عہد کریں کہ اس سال سے میں نے خون عطیہ کرنا ہے اپنے آپ کو بہترین انسان ثابت کر ے اور انسانیت کے ساتھ اپنی قوم کے بچوں کو محفوظ با اعتماد باعمل اچھا شہری بنانے کیلئے خون دیجیۓ امداد کیجئے اور اس کتاب کو ضرور خریدئے تا کہ صدقہ جاریہ بن سکے اور نہ ختم ہونے والی دراز نیکیوں کے سلسلے کا آپ بھی حصہ بنیں
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
جزاک اللہ خیر واحسن الجزا

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر