الطاف نہیں لسانیت پرست سنپولیا

Altaf Hussain

Altaf Hussain

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی لکھ رہا ہوں کہ کتوں کے بھونکنے سے فقیر کا رزق کم نہیں ہوتا۔ستائیسویں شب کو بنایا گیا ملک کسی الطافی بھونکے کے چنگاڑنے سے نہیں ختم ہو گا۔اللہ اس کا نگہبان اور ہم اس کے۔ اور میں ایک عرصے سے لکھتا رہا کہ ایم کیو ایم پاکستان توڑنے کی سازش میں مصروف ہے اسے اس قبیح کام کے لئے بھارت کی شہہ حاصل ہے اسے برطانیہ تھپکی دیتا ہے۔کل اس کے اندر کا خبث باہر آ گیا۔الطاف حسین نے اپنی کریہ آواز میں اپنے محس اور مربی بھارت سے مدد طلب کر لی۔اور چنگاڑتے ہوئے کہا کہ را ہماری مدد کرے۔بھارت آج سے اس کی مدد نہیں کر رہا اتفاق کی بات ہے میں کل ٹی وی ٹاک شو میں تھا میرے ساتھ دوسرے مہمان ایم کیو ایم کے نو منتحب سینیٹر میاں عتیق تھے۔میری ہمیشہ سے عادت ہے کہ میں دوسرے شخص کی گفتگو میں مخل نہیں ہوتا چاہے جتنا مخالفت میں بولے میں خاموش رہتا ہوں۔

لیکن اتفاق کی بات ہے کہ میری اس عادت کو بعض اوقات مخالف کمزوری سمجھتا ہے۔لیکن دوسرے ہی لمحے ہمارے دھوبی پٹکے موصوف کی آنکھیں کھول کے رکھ دیتے ہیں۔کل اسی طرح کی بد زبانی ایم کیو ایم کے اس شخص نے کی جس کا جواب دے دیا۔میرا سب سے زیادہ پسندیدیدہ موضوع ایم کیو ایم ہی ہے۔جدہ میں رہا صحافت کا قلم تھاما تو میری مخالفت میں جو لوگ سامنے آئے وہ اسی قبیل کے تھے۔میرا پختہ یقین ہے کہ ایم کیو ایم ہر اس شخص کی آواز ہے جسے پاکستان پسند نہیں۔نبی اکرمۖ کی حدیث مبارکہ ہے کہ تعصب سمندروں کے پانی کو بھی زہریلا کر دیتا ہے۔اس کیس میں یہی کچھ ہوا۔میں این اے ٢٤٦ کی سیٹ پر کبھی بھی امید نہیں رکھتا تھا کہ ہم جیتیں گے اس لئے کے ٩٠ کے ارد گرد گزشتہ تیس سالوں میں بے شمار لوگ اکٹھے ہو گئے اس وطن دشمن پارٹی نے جہاں کہیں سے ہوا ووٹ اسی حلقے میں اندراج کرایا۔

اپنے مضبوط تنظیمی دھڑے کی وجہ سے ہر گھر کو نشانے میں رکھا۔تحریک انصاف نے میری شمولیت کے بعد جو میں نے دیکھا سب سے بڑا کام کیا اس ننگ وطن شخص کو ننگا کر کے رکھ دیا۔کل اس نے را کو بلایا میں حیران ہوں کہ اس بغاوت کے باوجود ایم کیو ایم اسمبلیوں میں بیٹھ ہے۔ہے کوئی شرم ہے کوئی حیا اس پاکستان دشمن جماعت کو کیا حق ہے کہ وہ اس اسمبلی میں بیٹھے۔مجھے ےةیہ خان بلکل اچھے نہیں لگے لیکن جب ڈھاکہ میں پاکستانی پرچم کو جلایا گیا تو ان کی بات یاد آئی کہ باغیوں کو پھول نہیں بھیجا کرتے۔آئے روز ٹی وی چینیلوں پر ایم کیو ایم کی بد معاشیاں سامنے آ رہی ہیں میڈیا اس خوف کی فضا میں پھر بھی خبریں دے رہا ہے۔الطاف حسین نے میڈیا سے بھی کہا کہ آزادی ہماری وجہ سے ہے ورنہ آپ کی مائیں بہنیں گلیوں میں کھڑی نظر آتیں۔ایسے میں کوریج دینا دلیری کا کام ہے۔

Taliban

Taliban

میں سمجھتا ہوں کہ کہ پاکستانی میڈیا کو اغوا کر لیا گیا ہے ورنہ طالبان سے زیادہ پاکستان دشمن جماعت کو کیا حق ہے کہ وہ صبح و مساء پاکستان کی داڑھی نوچے۔ہمیں اور کچھ نہیں کہنا مگر اتنا ضرور کہنا ہے کہ کیا پاکستان کے دشمن مولوی فضل اللہ کو بھی اتنا ہی وقت میڈیا پر دیا جاتا ہے جتنااس ننگ ملت ننگ دیں کو دیا جاتا ہے۔کل جب عشاق کے قافلے سر زمین پاک پر اترے تو لا الہ اللہ کی شناخت تھی سکھوں کی کرپانوں نے جب سر قلم کئے تو یہ نہیں پوچھا کہ پٹنہ بہار کو ہے دلی سے تعلق ہے بنگالی ہو بہاری ہو یا پنجابی؟کل مجھے سینیٹر عتیق جو میری نظر میں بلدیہ کا رکن ہونے کے اہل بھی نہیں اس کی دھمکی تھی کہ دیکھ لو باتیں بڑی بڑی کر رہے ہو دیکھ لیں گے۔

پتہ نہیں لوگ کام کاروبار سیاست کس لئے کرتے ہیں۔کسی نے کیا اس دنیا میں ہزار سال زندہ رہنا ہے۔جو گھڑی قبر میں ہے وہ تو ہے تو پھر ڈر کاہے کا۔میں ان مصلحتوں کے تحت نہ زندہ رہا اور نہ ہی زندہ رہنا چاہتا ہوں ۔کچھ راستے بھی مشکل ہوتے ہیں اور کچھ شوق بھی مختلف ہوتے ہیں۔اسے تعصب نہ سمجھئے میں نجیب الطرفین گجر ہوں۔مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ۔پہلے پاکستانی نہیں پہلے مسلم کا دعوے دار اور پھر پاکستانی اس کے اوپر گجر اور وہ بھی چوہان۔وہ آسیہ نے کہا تھا نے کہ جٹی آپ وی خر دماغ اے۔مجھے اگر وہ زیادہ تنگ کرتا اور اسے لہجے میں بات چلتی تو میں نے توجوتا اتار لیا تھا۔ایم کیو ایم کو ئی عزرائیل نہیں ہے جو موت کے لائسنس بانٹتی ہے اللہ نے ہمیں بھی جرائت دی ہے،جس رنگ میں جس شکل میں جس انداز میں ہم سے نپٹنا چاہتی ہے حاظر ہیں۔وہ دلیہ کھانے والے کوئی اور ہوں گے۔

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم جب کھائی تھی تو اس کی راہ میں بھٹو جیسا فسطائی بھی تھا کھر جیسا عیاش بھی مشرف جیسا بنت فروش بھی کیا ہوا جنرل اسد درانی جیسے بزدل کیکڑے کے سامنے ہم ہیکھڑے ہوئے گجرانوالہ کے پولیس تھانے جدہ کی جیلیں سب دیکھیں رہے گا نام اللہ کا کل کے فرعون چوہوں کی طرح چھپتے پھرتے رہے کبھی آرمڈ فورسز ہسپتالوں میں کبھی کراچی کے کمینگاہوں میں بزدلوں کی کوئی قومیت نہیں ہوتی کوئی شہریت نہیں ہوتی اسٹیٹ کی قوت استعمال کر کے کسی کو اجاڑ کے رکھ دینے سے نہ اللہ ان سے راضی ہو گا اور نہ وہ جیتے جی عزت پائیں گے۔کیا ہوا جیلیں،ملک بدریاں نوکریوں کے خاتمے پیدل چلنا،ماں کا دنیا سے رخصت ہونا بس یہی کچھ ،

MQM

MQM

ہم تو آج پھر پھلے پھولے کھڑے ہیں نہ تیری ایم کیو ایم نہ تیرا آمرانہ قدم ڈگمگا سکا۔فوج کے ننگ وطن اسد درانی جنرل ،کرنل طارق جیسے مونچھوں والے چوہے ہمیں نہ ڈرا سکے نہ فوج سے ہماری دوستی ختم نہ ہم انڈیا اور اس کے ایجینٹوں کے ہاتھ لگے۔اس لئے کہ جانتے تھے کہ اجتماعی غلطی نہیں تھی یہ انفرادی ظلم تھا اسی لئے پاک فوج کا آج بھی احترام کرتے ہیں ہمیں مکمل علم ہے کہ جنرل مشرف کے طویل دور اقتتدار اور سیاہ دور اقتتدار نے پاکستان کو چرکے دیے ہیں اسی مشرف نے اس ناگن کو پالا کراچی میں اسے مضبوط کیا اور آج بھی اسی کی طاقت کے ذریعے بزدل الطاف کو اپنا قاید مانتا ہے۔اب اس سے کوئی پوچھے میڈیا کیوں خاموش ہے اس سے میرا سوال ہے کہ بتائو تم جو انڈیا کے دشمن بنتے ہو تمہارا دشمن را سے مدد مانگ رہا ہے۔

بتائو نہ کہ تم انڈین دشمن یا تمہارا لیڈر۔مشرف نے اپنا قد چھوٹاکر لیا۔میں اسے پہاڑ سمجھتا رہا اس کی کھدائی ہوئی تو پتہ چلا کی حضرت تو چوہے ہیں۔ایم کیو ایم کے خلاف پتہ نہیں کون سا آپریشن ہو رہا ہے وہ پاکستان کی گود میں بیٹھ کر داڑھی بھی نوچ رہی ہے اور مزے بھی کر رہی ہے۔کل کا شیطانی داڑھی والا سینیٹر کہہ رہا تھا کہ ہم پی ٹی آئی کو ایوان میں اجنبی ثابت کریں گے گویا جو اسی لاکھ ووٹ تحریک انصاف نے لئے وہ ایم کیو ایم کی مرہون منت تھے اسمبلی پاکستان کی ہے کسی کے باپ کا پچھواڑا نہیں کہ نہیں آنے دیں گے اس اسمبلی میں اسی لاکھ پاک و پوتر سوچ کے ووٹ بھی ہیں جہاں ٹھپہ مافیہ موجود ہے وہاں ایسے حسین بھی موجود ہیں جن کی باتوں کا آ غاز اللہ کے نام اور رسول ۖ کی مدحت سے ہوتا ہے۔

کراچی اب نکل رہا ہے آپ کی نحوست یافتہ شکنجے سے۔٩٠ کے حلقے میں ٣٠ ہزار ووٹ آزادی کا جھونکہ ہیں۔میں نے کل بھی کہا تھا کہ الطاف آئے خود اور لڑے الیکشن میانوالی سے اگر ضمانت ضبط نہ ہوئی تو سیاست میں ہی نہیں عمران خان بھی چھوڑ دے گا۔پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی لکھ رہا ہوں کہ کتوں کے بھونکنے سے فقیر کا رزق کم نہیں ہوتا۔ستائیسویں شب کو بنایا گیا ملک کسی الطافی بھونکے کے چنگاڑنے سے نہیں ختم ہو گا۔اللہ اس کا نگہبان اور ہم اس کے۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری