سنہ 2016 کی پانچ حیرت انگیز ایجادات

Surrey Space Center

Surrey Space Center

لندن (جیوڈیسک) سرجری کرنے والے روبوٹ سے لے کر مکڑی کی بنی ہوئی ریشم سے وائلن کی تیاری، مستقبل کی سائنس میں بہت کچھ ہے۔ ہر سال لندن میں رائل سوسائٹی کچھ ایسی ہی جدید ٹیکنالوجیوں اور سائنسی کمالات پیش کرتی ہے جو ہماری عام استعمال کی چیزیں بننے کے قریب ہوتی ہیں۔ سنہ 2016 کی فہرست میں ایسی ہی پانچ ایجادات پیش کی جارہی ہیں جو لیبارٹری میں تیار کی جاچکی ہیں اور انھیں حقیقی زندگی میں استعمال کیا جائے گا۔

1۔ خلائی کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانا
راکٹوں کے خالی خول، مردہ سیٹیلائٹ، شیشے کے ٹکڑے اور پینٹ کے ذرات خلا میں تیر رہے ہیں، خلا میں موجود یہ کوڑا تقریباً 7000 ٹن وزن ہے اور خلائی دور کے آغاز سے اب سے پھیل رہا ہے۔ زمین کے گرد گھومنے والی بہت ساری سیٹیلائٹس کا ان میں سے کسی چیز کے ساتھ ٹکرانے کا خطرہ ہے جو ہمارے انٹرنیٹ اور موبائل کے مواصلاتی نظام کے لیے اہم ہیں۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن باقاعدگی کے ساتھ اس ملبے سے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے اپنی پوزیشن درست کرتا ہے۔

اب ’ریموو ڈربس مشن‘ یعنی ملبہ ہٹانے کا مشن یہ کام سرانجام دے گا۔ یہ منصوبہ سنہ 2017 کے اوائل میں شروع کیا جائے، جس میں ملبہ پکڑنے والی ٹیکنالوجیوں کا تجربہ کیا جائے گا جو زمین کے فضا کے گرد موجود اس ملبے کو دوبارہ زمین پر لائے گا۔


مچھروں پر نظر رکھنا

کئی دہائیوں سے سائنسدان انوفیلس مچھر سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مچھر کی یہ قسم ملیریا پھیلانے کا باعث بنتی ہے جس سے سالانہ چار لاکھ 38 ہزار اموات واقع ہوتی ہیں۔ مچھروں کو مارنے والی دواؤں کے استعمال سے مچھروں میں اس کے خلاف قوت مدافعت بھی بڑھ رہی ہے ساٹھ ممالک میں مچھروں میں کیڑے مار ادویات کا مقابلہ کرنے کی اطلاعات ہیں اور مغربی اور شمالی افریقہ میں اس کی سطح پریشان کن حد تک ہے۔ مچھروں کے خلاف اس لڑائی میں کامیابی کے لیے اس کے برتاؤ کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔

لیورپول سکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے محقق جوزی پارکر نے بتایا: ’ہم مچھر دانیوں کے گرد اڑنے والے مچھروں کی پرواز دیکھنے کے لیے انفرا ریڈ کیمرے استعمال کر رہے ہیں۔‘ ’دی ماسکیٹو ڈائریز‘ پراجیکٹ اس بات کا جائزہ لے گا کہ یہ کیڑے مچھر دانیوں سے کتنی دیر تک چھوتے ہیں اور مچھر مار دوا انھیں کتنی دیر تک سوتے ہوئے فرد کو کاٹنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ جوزی پارکر کہتے ہیں: ’مچھر مار دوا کو کام کرنے کے لیے ان کا جالی کو چھونا ہوتا ہے اور انتہائی مختصر وقت ناکافی ہوتا ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ وہ کتنی دیر تک موجود رہیں تو وہ مارے جائیں گے۔‘

4D ایکس رے کے ذریعے نئی کھوج
یہ ایک پیچیدہ مشین ہے جس کا نام 4ڈی ایکس رے سنچروٹرون ہے۔ اور اس کی مدد سے سائنسدان چیزوں کے اندر تک دیکھ سکتے ہیں۔ یہ زمین کے تہہ کے اندر موجود مادے کو دیکھ سکتے ہیں تاکہ آتش فشاں کے پھٹنے کے بارے میں جان سکیں یا برف کے ٹکڑوں کی جانچ کی جا سکتی ہے کہ کچھ آئس کریموں کا ذائقہ زیادہ بہتر کیوں ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف مانچسٹر سے وابستہ سنچروٹون کے ماہر ڈاکٹر کمال مہدی کہتے ہیں کہ : ’ہم نے اس میں ایکس رے کمپیوٹر ٹوموگرافی کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو بہت زیادہ تیز روشنی پر انحصار کرتی ہے، یہ اتنی طاقتور ہے کہ یہ چیزوں کے اندرونی ڈھانچے کو بھی تھری ڈی شکل میں پیش کر سکتی ہے۔ ہم کسی بھی چیز کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔‘ سنچروٹون کی شعاع سورج سے دس ارب گنا زیادہ روشن ہوتی ہے اور اس کے ذریعے کسی بھی چیز کو کاٹے بغیر اس کے اندر تک داخل ہو سکتی ہے۔

مکڑیوں سے کام لینا
مکڑیوں کے بنائے ہوئے جالے حیاتیاتی ٹشو کے ساتھ مطابقت رکھنے اور مستحکم اشیا کی نئی نسل کی اہم کڑی ہیں۔ یونیورسٹی آف آکسفرڈ کے آکسفرڈ سلک گروپ کے ماہر حیاتیات بیتھ مورٹیمر کہتے ہیں: ’مکڑیوں کا ریشم 30 کروڑ برسوں سے موجود ہے اور مکڑیاں کم سے کم مواد کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرتی ہیں۔‘

مکڑیاں جال بننے کے لیے پروٹین کا استعمال کرتی ہیں جو عام طور پر شکار پکڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم تحقیق ریشم کے مالیکیول کے ڈھانچے اور اس کے استعمال کے لیے ہر سال نئی دریافت کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ سائسندانوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ قدرت میں چند عناصر ایسے ہیں جو توانائی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسا کہ مکڑی کا ریشم کرتا ہے۔‘

ہڈیوں کا ارتقا
سائنسدانوں نے لیبارٹری میں ایسی ٹیکنالوجی بنائی ہے جس سے کیمیکل اور ادویات کے بغیر مصنوعی ہڈی صرف لرزش سے تیار کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے اسے ’نینوککنگ‘ کا نام دیا ہے، یہ ٹیکنالوجی ہڈی کے گودے سے سٹیم سیلز لیتی ہے جنھیں مختلف قسم کے خصوصی خلیوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ہائی فریکوئنسی پر ’زور‘ لگا کر انھیں ہڈیوں کے خلیوں میں تبدیل کر سکتی ہے۔

چنانچہ مریض کے خلیوں سے ہڈیوں کے نئے ٹکڑے کیمیکل کے بغیر اور بغیر کسی نقصان کے بنائے جا سکتے ہیں۔ اس میں جسم کے دوسرے حصے نکالنے والی تکلیف دہ سرجری شامل نہیں ہے اور ٹشو کی مماثلت نہ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔