کیا ہم امریکہ کی کالونی ہیں

U.S.

U.S.

موسیٰ حسین کا تعلق ایران کے ایک تاجر گھرانے سے ہے اسکا کاروبار یورپی ممالک کیساتھ منسلک ہے دوبئی کے راستے نیو یارک(امریکہ)اکثر جانا ہوتا ہے 2006ء کی ایک صبح جب وہ نیو یارک ائرپورٹ پر اترا تو امریکی سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکاروں نے نہ صرف اسکی برہنہ تلاشی لی بلکہ انتہائی ذلت آمیز سلوک کیا گیا پوچھ گچھ کے نام پر موسیٰ حسین کو کئی گھنٹے حراست میں رکھا گیا موسیٰ حسین ایک شریف فیملی کا فرد تھااور اسکے لیے یہ سلوک انتہائی کرب کا باعث بناپریشانی بڑھی اورموسیٰ حسین کی طبیعت بگڑگئی وہ نیو یارک کے ایک ہسپتال پہنچ گیا ۔

چار روز اسکو ہسپتال کے بستر پر گزارناپڑے موسیٰ حسین نے کاروباری معاملات کو سمیٹا اور ہنگامی حالت میں وطن واپسی کی راہ لی ایران کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد وہ سب سے پہلے ایرانی ذرائع ابلاغ کے پاس پہنچا اس نے اپنے ساتھ ہونیوالے شرمناک اورذلت آمیز امریکی ایجنسیوں کے کردار کی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے کھل کر وضاحت کی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو پوری کہانی سنانے کے بعد اسنے اپنا مطالبہ ایرانی حکومت کے سامنے ان الفاظ میں رکھا”کہ اگر امریکی ایجنسیاں امریکی میں داخل ہونیوالے ایرانی شہریوں کی تلاشی لے سکتی ہیں امریکہ میں شریف ایرانی شہریوں کے فنگر پرنٹس لازمی ہیں تو ایران میں ایسا کیوں نہیں۔

اخبارات نے موسیٰ حسین کے ساتھ ہونیوالے امریکی ایجنسیوں کے ناروا سلوک کی کہانی اور مطالبہ کو بھر پورکوریج دی۔ایران کے عوام اس ذلت آمیز رویہ پر موسیٰ حسین کی آواز بن گئے۔موسیٰ حسین کامطالبہ ایرانی پارلیمینٹ میں ایک مضبوط قرارداد کی شکل میں پہنچ گیاایرانی پارلیمینٹ میں کئی روز اس پر بحث ہوئی محب پارلیمینٹیرین نے نہ صرف مذمتی قراردادیں پیش کیں بلکہ کثیر تعداد پارلیمینٹیرین کی ایسی تھی جس نے اسے پارلیمینٹ میں بل کی شکل میں پیش کر دیا۔

ایران کے ایک شہر میں موسیٰ حسین کے الفاظ جب ایک بل کی شکل میں پارلیمینٹ میں پیش ہوئے تو کوئی بھی ووٹ اس بل کے خلاف نہ آیا۔ 19 نومبر 2006 ء وہ تاریخی دن تھا جب پارلیمینٹ میں یہ قانون ان الفاظ کی شکل میں منظور کر لیا کہ”2007ء سے کوئی بھی امریکی شہری جب ایران کی حدود میں داخل ہوگااسکے نہ صرف فنگرپرنٹس لیے جائینگے بلکہ امریکی شہری ایرانی ایئرپورٹ کی حدود سے نکلنے سے پہلے اپنے سامان اور کپڑوں تک کی تلا
شی دینے کا پابند ہو گا

Mahmoud Ahmadinejad

Mahmoud Ahmadinejad

قانون پاس ہو گیا مگر سابقہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے اس قانون پر کچھ تحفظات تھے انکا نقطہ نظر تھا کہ ایران کے اختلافات امریکی حکومتوں سے ہیں امریکی عوام سے نہیں انکا خیال تھا کہ اس قانون سے امریکی سیاحوں اور مسافروں کو تکلیف ہو گی، سفارتی تعلقات پرزک آئیگی امریکی مہمانوں کے میزبانوں کو بھی شرمندگی کا سامنا رہے گا

ایران میں ایک گارڈین کونسل ہے جو ایرانی دستور کے مطابق ایک ایسا ادارہ ہے جس کے چھ بنیادی سیاسی رکن اور چھ عدالتی اراکین کسی بھی قانون کو ویٹو کرنے کی طاقت رکھتے ہیں کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دلوانے کے لیے ایرانی صدر کو اپنا مقدمہ گارڈین کونسل میں پیش کرنا پڑتا ہے

محمود احمدی نژاد نے اپنے نقطہ نظر کو ایک اپیل کی شکل میں گارڈین کونسل کوپیش کردیا گارڈین کونسل نے صدرکی اپیل کی جائزہ لیا تو ایرانی شہری کے ساتھ امریکی ایجنسیوں کے ناروا رویہ ،سلوک کے سامنے صدرکی اپیل کی کوئی حیثیت نہ تھی گارڈین کونسل نے موسیٰ حسین کے مقدمہ کو مضبوط سمجھتے ہوئے صدر کی درخواست مسترد کر دی اور ساتھ ہی یہ تاریخی الفاظ لکھے امریکہ میں داخل ہونیوالے ایرانیوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہر روز شرمناک سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگر امریکی اس شرمناک سلوک کا تھوڑا سا حصہ لے لیں تو قیامت نہیں آجائیگی چونکہ ایرانی پارلیمینٹ جو کہ عوامی ادارہ ہے وہ قانون پاس کر چکی ہے لہذا کوئی امریکی شہری اب اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہو گا آج ایران کی سرحد پار کرنے سے قبل امریکہ کے ہرشہری کو اسی تحقیق و تفتیش کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس طرح امریکی سرزمین پر داخل ہونیوالے دنیا کے کسی بھی مسلمان باشندے کو۔ آپ وطن عزیز میں دیکھ لیں 9 دسمبر 2009 کو سرگودھاسے پانچ امریکی دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہونے کی بناپر گرفتا ہوئے ہماری حکومت نے امریکی دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔

Chaudhry Nisar

Chaudhry Nisar

وزارت داخلہ کی طرف سے بیان آگیا کہ انہیں ڈی پورٹ کر دیا جائیگا مگر عدلیہ نے نوٹس لیا اور چیف جسٹس ہائی کورٹ نے تفتیش اورتحقیق کے مراحل سے گزارے بغیر ان امریکیوں کو ڈی پورٹ کرنے سے روک دیا 13 دسمبر 2009ء لاہورپولیس نے ایک مرتبہ پھر امریکی قونصلیٹ کی دو گاڑیوں کو جعلی نمبر پلیٹس استعمال کرنے پر روک لیا روکنے پر نہ صرف گاڑی میں سوار امریکیوں نے پولیس اہلکاروں کو گالیاں دیں بلکہ یہ دھمکی دی کہ اگرآئندہ انہیں روکا گیایا تلاشی لینے کی کوشش گئی تو وہ گولی مار نے سے دریغ نہیں کریں گے۔

امریکیوں نے جاتے ہوئے پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کو یہ باور کرایا کہ وہ پاکستانی قانون کے پابندنہیں ان پرصرف امریکی قانون لاگو ہوتا ہے وفاقی دارلحکومت جہاں بلیک واٹر کی سرگرمیاں عروج پر ہیں 284 گھروں میں 414 امریکی مقیم ہیں جن کو اسپیشل امریکی کہا جاتا ہے یہ امریکی بھی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہیں لاہور میں امریکی اپنے قونصلیٹ میں مشکوک سامان کے دس بڑے بڑے ڈبے لیکر جا رہے تھے۔

مگر تلاشی نہیں لینے دی گئی امریکی سفارتخانے کے ترجمان رچرڈ فلیئر کا کہنا تھا کہ امریکی سفارت خانے کا سامان چیک نہیں کیا جاسکتا وطن عزیز کے تمام بڑے شہروں میں امریکی شہریوں کی بڑھتی ہوئی مشکوک سرگرمیاں جاری ہیں امریکی شہری سیکیورٹی کلیئرنس کے بغیر جہاں چاہیں دندناتے پھریں مگرہمارے ہاں عام شہریوں کو تو چھوڑیے ہمارے وزراء تک کو امریکی ائرپورٹ پر اترنے کے بعد جوتے اتار کر ،برہنہ تن ذلت آمیز تفتیش کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے مگر کوئی آواز، کوئی احتجاج ،کوئی واویلہ اس چاک چاک عزت نفس پر بلند نہیں ہوتا۔

ہماری غیرت کا حال یہ ہے کہ پارلیمینٹ میں کسی رکن اسمبلی نے کبھی اس پر کوئی قرارداد پیش نہیں کی اس کی وجہ شاید یہ ہے ہمارا وطن کل برطانیہ کی کالونی تھا توآج امریکہ کی کالونی ہے کسی کو امریکہ کی کالونی کہنے پر میرے ان الفاظ پر اعتراض ہے تو وہ اقبال کی دھرتی کے ایمل کانسی، یوسف رمزی کے کیس کو سامنے رکھے ،عافیہ صدیقی کو امریکی درندوں کے زنداں سے چھڑالائے اور 750 افراد کو گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں سے نجات دلائے جنہیں مشرف دور حکومت میں امریکی بغیرکسی قانون کے اٹھاکرلے گئے۔

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر: ایم آر ملک