امریکہ فاشزم کے بھوت تلے

Election

Election

تحریر: راحت ملک
2016 کاسال دور رس تبدیلیوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے کہ نومبر کے مہینے میں متحدہ امریکہ میں صدارتی انتخاب ہوگا۔

دونوں بڑی امریکی سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے کے لئے جاری انتخابی دوڑ میں جون کے پہلے ہفتے میں واضح ہوگیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن کے جبکہ ہیلری کلنٹن ڈیموکریٹ کی امیدوار ہوں گی ۔امریکہ کے صدارتی انتخاب کا طریقہ انتہائی پیچیدہ پہلودار اور منفرد ہے دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اسے قابل تقلید نہیں بنایا گیا شائد بلکہ اسکی وجہ امریکہ کی کثیر، متنوع، سماجی ثقافتی اور لسانی ساخت ہے جس سے امریکی مدبرین نے اپنے مخصوص معاشرتی ماحول اور سیاسی تناظر میںاپنے لئے منفرد جمہوری نظام ترتیب دینے کی ترغیب لی۔چنانچہ امریکہ کے سیاسی نظام نے باوجود تضادات اور اختلافات کے اب تک وفاق نما کنفیڈریسی کو قائم رکھا ہے۔ وفاق کی ریاستوں کو اپنے معاملات چلانے کی آزادی کی آخری منزل یہ ہے کہ کئی ریاستیں اپنے اپنے علیحدہ آئین رکھتی ہیں جو بہر حال مرکزی دستور کے منافی و متصادم دفعات سے مبرا ہیں۔

صدارتی انتخاب میں کوئی بھی شہری امیدوار بن سکتا ہے تاہم مقبول روایت اورفتح مندی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کی نامزدگی حاصل کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اور یہ نامزدگی بھی مذکورہ جماعت کے قائدین کی بجائے بنیادی عوامی رائے یا جماعتوں کے بنیادی ارکان کی دستیاب حما عت سے حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ حیرت انگیز بات یہ ہوگی کہ ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن امیدوار بن جائیں کیونکہ ری پبلکن کے بزرگ اور ممتاز رہنما اسے پارٹی کا بنیادی رکن بھی تسلیم نہیں کرتے۔ خیر سر دست میرا مقصدامریکی صدارتی انتخاب کے طریقہء کے جائزے کی بجائے اس انتخابی مہم کے خیالات و مابعد اثرات کے ایک ایسے پہلو پر بات کرنا ہے جس سے مجھے اور شائد لاکھوں افراد کو دلچسپی ہو گی۔

2016 کے انتخابات کے لئے امریکی ڈیموکریٹ کے ممتاز رکن سینیٹر برنی سینڈرس نے جو نیویارک کے نواحی علاقے میں اگست 1941کو پیدا ہوئے پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے لئے بھرپو ر پارٹی مہم چلائی۔ گو کہ برنی اب صدارتی نامزدگی مہم سے دستبردار ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنی مہم کے دوران جن خیالات و تصورات کا پرچار کیا وہ دور رس اہمیت کے حامل ہیں۔ برنی نے امریکی معیشت کے روائتی رواں کردار کو 180ڈگری پر بدلنے کی بات کی اور برملا کہا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو ئے تو امریکہ کی معاشی حکمت اور معاشی سانچے کو یکسر بدل دیں گے۔ برنی صدارتی نامزدگی مہم کے بہت سے مراحل طے کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن کے بعد دوسرے اہم امیدوار بن کر ابھرے تھے۔ دستبرداری کے با وجودیہ پہلو ہی قابل ستائش، حوصلہ افزاء اور دنیا کے لئے قابل غور ہے کہ اس امریکہ میں جہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد میکارتھی ازم کے نام پر سوشلزم کے خلاف انتہائی سخت گیری ، رویہ و اقدامات اٹھائے گئے۔ نیز امریکہ نے عالمی سرمایہ دارانہ شکنجے کی قیادت کرتے ہوئے سوشلزم کی مخالفت میں دامے درمے قدمے سخنے اپنے اور اتحادیوں کے تمام وسائل بے دریغ خرچ کئے۔ برنی سینڈرس اسی سرزمیں پر سوشلزم کے ہمنوا بن کر صدارتی معرکہ آرائی کے نمایاں فرد کی حیثیت میں ابھرے۔

Bernie

Bernie

برنی نے نامزدگی مہم سے دستبرداری کرکے کسی کو حیران نہیں کیا مگر اسی دوران اپنے معاشی ایجنڈے کے برملا اظہار سے جہاں انہوں نے دنیا بھر کے اہل الرائے کو متوجہ کیا وہاں برنی نے امریکی معاشرے کے سیاسی ایجنڈے کو بھی اتھل پتھل کر دیا۔برنی کا صدارتی نامزدگی میں سوشلزم کی حمایت کرنا ہی تاریخ کا یادگار عمل اور نئی تبدیلی کا نکتہء آغاز ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ آغاز بہت جاندار ہونے کے باوصف تاریخی اعتبار سے قبل از وقت واقعہ ہے جس کا عملی شکل میں ڈھلنالمحہء موجود میں ممکن نہیں تھا، ہاں یہ کہنا ددرست ہوگا کہ عالمی سرمایہ داری نظام کی کمیت کیفیتی تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ امریکی عوام نے برنی کے خیالات اور نئے پیغام کو توجہ سے سنا اور اسے سراہا اس سے دو نتائج اخذ کرتا ہوں

الف۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام بہ الفاظ معاشی دولت کی تقسیم کا رائج نظام عملی دولت کے ارتکاز کرنے کے تسلسل کے بعدسماجی سطح پر پیداواری عمل کو برقرار رکھنے میں ناکامی کا اعتراف کرچکا ہے۔ برنی اسی اعتراف کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

ب۔ امریکہ جیسے سرمایہ دارانہ معاشرے میں جہاں قدامت پسندانہ معاشی سماجی رجحانات اور سوشلزم مخالفت کا کٹر پن مستحکم بنیاد رکھتا تھا وہاں کی رائے عامہ اگر رائج نظام کے خلاف متبادل نظام کو اپنانے کے لئے آمادہ ہے تو اسکے اسباب محض لوگوں کی سیاسی وابستگی نہیں بلکہ اس کی وجہ مروجہ معاشی نظام سے عوام کا بدظن ہونا اور اس کی ہولناکیوںو نا انصافیوںسے دل برداشتہ ہونا بھی ہے۔ برنی اسی برگشتگی کی نمائندگی کر رہا ہے۔

بہ الفاظ دیگر امریکہ میں سیاسی حوالے سے ملکی معاشی تناظر میں سوشلزم کی جانب سرکنے یا متوجہ ہونے کی علامت ابھرتی دکھائی دے رہی ہے تو یہ خوش آئند منظرنامہ زیادہ سنجیدگی سے امریکی سماج میں تبدیلیوں کا جائزہ لینے کا بھی متقاضی ہے کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی روائتی حریف ری پبلکن جماعت اپنے قیام کے اولین ایام میں ‘ انقلابی ‘ تھی بعد از اں اس کا جنگی جنون قدامت پسندی اور بالا دستی کے خبط نے اس کی ساخت اور شناخت کو بری طرح متاثر کیاتھا۔عمومی رائے کے مطابق امریکہ میں ری پبلکن کا اقتدار دنیا بھر میں جمہویت مخالف، جنگی جنون و فوجی سرگرمیوں میں اضافے کا سبب سمجھا و تسلیم کیا جاتا ہے۔تاہم ری پبلکن پارٹی قدامت پسندی کے تنگ دھارے میں آگے بڑھتے ہوئے کبھی نسل پرست کی شکار نہیں ہوئی ( ہماری معلومات کی حد تک ) لیکن رواں صدارتی انتخابی عمل نے واقعات اور معروضی صورت حال کو بدل دیا ہے۔ امریکہ جسے آزادی اور مواقع کی سرزمین سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ اس ریاست میں رنگ نسل زبان عقیدہ اور ثقافت کا تنوع ہی امریکہ کی خصوصی شناخت و طرہء امتیاز ہے وہاں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا قومی شاونشٹ اپنی بے پناہ دولت اور کھلنڈرے پن کی بناہ پر اچانک سیاسی افق پرنمودار ہوا اور ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی مہم میں اپنے سب حریفوں کو پیچھے چھوڑ گیاہے۔

Hillary Clinton, Donald Trump

Hillary Clinton, Donald Trump

آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ نومبر میںجب صدارتی انتخاب کا معرکہ سجے گا تو میدان میں ہیلری کلنٹن کے مد مقابل ڈونلڈ ٹرمپ ہی دو طاقتور حریف صف آراء ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نامزدگی کے زریعے ری پبلکن پارٹی کو مزید انتہائی دائیں جانب دھکیلے گا اور معاشرے کو نسلی شدت پسندی، قومی تنگ نظری و نسلی شائونزم اور امریکی تارکین وطن کے ساتھ تصادم کی جانب لے جائے گا۔ ایسا محض ڈونلڈ کے خیالات کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ اس عمل کی ٹھوس معروضی معاشی و سماجی وجوہات ہیں جنہیں ڈونلڈ نے محسوس کیا اور اپنے انتخاب کے لئے اب تک موثر طور پر استعمال کیا ہے۔گویا ڈونلڈ نے معروضی حقیقت طشت از بام کی ہے کہ امریکی سرزمین اب روایتی مواقع کی سرزمین نہیں رہی بلکہ وہاں پیداواری اور تقسیم دولت کے سلسلے میںگہرے تصادات و ٹھرائو آگیا ہے چنانچے سرمایہ داری اور مقامی امریکیوں کی اجارہ داری دونوں زوال پذیر ہیں ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جس آزاد دنیا کی کامیابی کے نعرے بلند ہوئے تھے برنی اور ڈونلڈ دونوں ان خوشنما دعووں کی قلعی کھول رہے ہیں تو اسکے معنی یہ ہیں کہ امریکی داخلی سیاسی رجحانات تیزی سے سوشلزم اور قومی شاوئنزم کی جانب بڑھ رہے ہیں یعنی خدشہ ہے کہ یہ دونوں رحجان یکجا ہوکر قومی سوشلزم کا وہی لبادہ اوڑھ سکتے ہیں جس کی جھلک دنیا نے جرمنی میں ہٹلر کی صورت دیکھی تھی۔

ایک جانب امریکی معیشت میں گراوٹ اورٹھہرائوکے آثار اوردوسری سمت معاشی قوت و مرکز کے طور پر ایشیائی خطے کا نمایاں ظہور بہت طاقتور مظہر ہیں جن کے حوالے سے برنی و ڈونلڈ کے خیالات کا جواز تلاش کیا جا سکتا ہے۔ داخلی اعتبار سے بھی امریکی معیشت تضادات کے گورکھ دھندے میں اُلجھی ہوئی ہے ۔ جہاں صلاحیت و ہنرمند افراد کی قلت اور تنخواہوں میں اضافے سے معلوم ہوتا ہے کہ معیشت کا غیر منصوبہ بند پہیہ آگے کی بجائے پچھلی سمت چل رہا ہے۔اگر قومی تنگ نظری اور شائونزم کے آثار فی الحال سامنے نہ آتے تو بذات برنی کا اظہار فی الواقع مثبت عمل ہوتا۔ ڈونلڈ نے اس عمل کی افادیت کو دھندلا دیا بلکہ خوفناک سا بنا دیا ہے۔ مستقبل قریب میں ہو سکتا ہے کہ2022 کے انتخاب میں کوئی اصلی امریکی ہٹلر پورے طمطراق کے ساتھ صدارتی انتخاب میں اترے اور کامیابی سے وہایٹ ہائوس کا مکین بن جائے۔

Donald Trump

Donald Trump

تب دنیا پہ کیا بیتے گی؟ اس پر ابھی سے غور و فکر کرنا چاہئے۔ڈونلڈ مذھبی شدت پسندی اور فرقہواریت کے آسیب کی شکل میں امریکی وتمام مسلمانوں کا کٹر مخالف ہے جس طرح ہٹلر یہودی دشمنی میں سب سے آگے تھا۔ڈونلڈ میکسیکو اور دیگر غیر یورپی تارکین وطن کا مخالف اور ان کی موجودگی سے خوفزدہ ہے،اسی خوف کے بطن سے وہ ردِعمل سامنے آسکتا ہے جو امریکہ میں نسلی لسانی ثقافتی تطہر کے ذریعے پُر تشدد کشیدگی میں بدل جاتے،اس پُر کو جمود شدہ معاشی عمل مہمیز کرنے کے بعیدازقیاس نیں کہ ”معاشی سانچہ” قومی سوشلزم کے نعرے میں بدل جائے۔یوں دونوں رحجانات باہم یکجا ہوکر امریکی فسطائیت کے نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔برنی اور اس کے ہم خیال ملتے تو اس منفی امکان ورویے کو ملحوظ رکھتے ہوتے۔امریکہ میں وسیع تر ثقافتی لسانی اور مذھبی تنوع کو برقرار رکھنے کے لئے ڈونلڈ کے اثراتِ بد سے بچنے کیلئے ابھی سے محتاط اندازوحکمت عملی اپنانی چاہیے

مرتکز شدہ سرمائے کے سب سے بڑے ایک امریکی معاشرے کی معاشی کیفیت سے متعلق واشنگٹن کے صحافی سام فلیمنگ لکھتے ہیں” امریکہ میں متعدد شعبہ جات میں ہنرمندوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بے روزگاری کی شرح کم ہوکر 4 فیصد کی طرف جا رہی ہے جبکہ کام کرنے کی عمر میں موجودہ آبادی میں کچھ اضافہ نہیں ہو رہا۔ پچھلے 16 برسوں میں کسی آسامی کو پر کرنے میں اتنا زیادہ وقت نہیں لگتا تھا جتنا آج (2016ًَٔ) میں لگتا ہے جبکہ لوگوں کا خود اپنی ملازمت چھوڑنے کا تناسب بھی 2007 کے معاشی بحران کے بعد سب سے زیادہ ہے ایسے میں با صلاحیت ہنرمندوں کی تلاش میں درپیش مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں جس کی بنا پر تنخواہوں میں اضافہ جبکہ تجارتی منافعوں میں کمی ہو رہی ہے۔ ”

Economic

Economic

مزید اعداد و شمار اور معاشی اشارے بھی امریکی معیشت اور معاشرتی بحرانی کیفیت کو نمایاں کرتے ہیں دریں حالات برنی اگر سوشلزم کا پرچار کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معیشت کی آزاد روی کے تدارک اور منصوبہ بند معیشت کے زریعے ہنرمند افراد کی فراہمی و کھپت میں توازن کے زریعے تجارتی منافعوں میں توازن قائم کیا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ دوسری طرف ڈونلڈ ہنرمند با صلاحیت امریکی افراد کی کمی سے نمودار ہوتے خلاء میں ایشیائی،لاطینی اور افریقی افراد کی کھپت سے پریشان ہے۔ اور اسے یقین ہے کہ تارکین وطن کی مسلسل آمد سے آج کے ” امریکی ” آنے والے کل میں ریڈ انڈین بن سکتے ہیں، یوں سفید فام یورپیوں کی براعظم امریکہ پر قبضے سے اصل سرخ فام باشندوں کی طرح غائب ہو سکتے ہیں۔ تاریخ خود کو المیے کی صورت دُھرا سکتی ہے۔ تاہم دونوں مسائل کا باہمی تضاد یہ ہے کہ ہنرمند افراد کی سستے داموں ( کم اجرت )پر فراہمی تبھی ممکن ہے کہ تارکین وطن کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ تجارتی منافع میں استحکام لایا جاسکے۔ مگر اس طرح تو امریکی اقلیت میں بدل سکتے ہیں ڈونلڈ اسی خوف کا ڈرائونا نام ہے سو دریں حالات امریکہ میں قومی سوشلزم یا فاشسٹ سیاست کا عروج و اقتدار تک پہنچنا بعد از قیاس نہیں۔ بدلتے امریکہ کے ساتھ دنیا کس طرح ساتھ دے پائے گی اس امکانی خطرے بارے آج ہی سوچئے۔

تحریر: راحت ملک