کہہ رہا ہے مجھ سے یہ دل کا نگر میرا

کہہ رہا ہے مجھ سے یہ دل کا نگر میرا
کبھی تو دے گا مجھ کو ثمر شجر میرا

تلاش نان جویں نے سماعتیں چھین لیں
پکار رہا ہے اب بھی مجھے شہر میرا

میں تجھ پہ قربان جاوں اے میرے قاتل
کاٹ رہا ہے دستار سے پہلے سر میرا

یہ التجا نہیں خبر ہے میرے صیاد
قفس میں دن گزار چکا بال و پر میرا

مسافتوں کی کہانی لکھوں گا آخر میں
ابھی پاوں میں باقی ہے کچھ سفر میرا

گئے مسافر کیا آج بھی نہیں لوٹیں گئے
سوال کرتاہےروزمجھ سے دیدہ تر میرا

ہم نے ماہ عروج سے کل پوچھا تھا جمال
کس حال میں رہتا ہے اب قمر میرا

Sad Walking

Sad Walking

تحریر : انور جمال فاروقی