کپتان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے لیے !

Politics

Politics

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال

اب کیا ہو گا؟ کے سوال کی اہمیت ابھی تک قائم ہے ۔پاکستان میں اس وقت بحران کو حل کرنے کے معاملے میں ایک خاموشی چھائی ہوئی ہے اس خاموشی میں کوئی طوفان چھپا ہوا نہ ہو ۔لگتا ہے کہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دھرنے والے خود ہی تھک کر واپس چلے جائیں گے مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اب تک دو درجن سے زائد شہادتیں دینے والے ناکام کیسے واپس جائیں ۔ناکام جانے سے ان کی سیاست ہی نہیں کردار و اعتبار بھی متاثر ہو گا جو وہ کسی بھی قیمت پر افورڈ نہیں کر سکتے ۔اسی طرح وزیراعظم کا استعفی دینا بھی مسلم لیگ ن کے لیے سیاسی موت ہے ۔جو وہ کسی بھی طرح ،کسی بھی قیمت پر قبول نہیں۔

تو پھر اس بحران کاحل کیا ہو ؟اس بارے میں حکومت کی لاپرواہی ،اور دیگر جماعتوں کی بے حسی، لاتعلقی ، تماشا دیکھتے رہنے کی کیفیت کسی حادثے کا پیش خیمہ نہ بن جائے ۔پاک آرمی نے کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں مل کر اس بحران کا حل نکال لیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے ابھی تک کوئی حل نہیں نکالا ۔ آرمی چیف کو ہمارا مشورہ ہوتا اگروہاں تک ہماری بات پہنچ سکتی کہ آرمی چیف ایسا کہتے اتنی مدت میں حل نکلنا چاہیے تو زیادہ اچھا ہوتا۔اسی طرح جرگے کا کردار ہے۔

میں صاف کہتا ہوں کہ جرگے نے جو کچھ کیا ہے اب تک بے معنی ہے ۔جرگے کے سب سے اہم رکن جناب سراج الحق کو قرآن پاک کے حکم(مفہوم) دو گروہ اگر مسلمانوں کے آپس میں ناراض ہو جائیں تو ان کی صلح کر وا دو جو حق پر نہ ہو اس کے خلاف لڑو جب تک وہ اپنی غلطی مان نہ لے ۔پر عمل کرنا چاہیے یہی کردار ایم کیو ایم کے رہنما الطاف بھائی کو ادا کرنا چاہیے تھا ۔

ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو چاہیے کہ دھرنے تھوڑی مدت کے لیے ختم کر دیں ۔عید الاضحی گھر میں کریں ۔اس کے لیے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جس سسٹم کو ،نظام کو وہ ختم کرنا چاہتے ہیں ،اسے ختم کرنے کے لیے اس سے طاقت ور ہونا پڑے گا ۔تب اس کا خاتمہ ممکن ہے اس کے لیے احتجاج کا دائرہ کار بڑھا دیا جائے ،ہر شہر میں جلسے کیے جائیں ،ایک دن میں دو دو ہو سکتے ہیں ڈاکٹر بھی اور عمران بھی ایسا کریں محرم میں دوبارہ پھر ایسے ہی دھرنا دینے کے لیے نکل آئیں تب تک دس لاکھ افراد دھرنے کے لیے مستقل ان کے پاس ہوں اور باقی ہر شہر و گاوں میں جہاں تک ان کی آواز جا چکی ہے وہاں اسے جاری رکھنے کے لیے اس تحریک کو منظم کیا جائے ْجہاں تک یہ بات ہے

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

لوگ کیا کہیں گے ،ناکام ہو گے ،تھوڑے دن ایسا کہا جائے گا پھر جب آپ دوبارہ تحریک ،مارچ،دھرنے شروع کر دیں گے تو اس شور میں سب دب جائے گا ۔ویسے بھی دنیا کب چپ رہتی ہے کہنے دے جو کہتی ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو صلح حدیبہ کے واقع کا علم ہو گا اس میں آپ ۖ نے بظاہر ناکام واپسی اختیار کی مگر اس کے چند سال بعد آپ نے مکہ فتح کر لیا ۔کیا خبر تب تک ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی آپ کے ساتھ شامل ہو چکی ہو ،ایک بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے ،گھر گھر تک ان کی آواز پہنچ گئی ہے ،آج پاکستان کی اکثریت کوآئین و قانون اور جمہوریت کا علم ہو چکا ہے ،دھاندلی اور کرپشن کو بھی سب جان گئے ہیں ۔اب ان میںایک نئی روح پھوکنے کی ضرورت ہے ۔حکومت کے خلاف عدلیہ میں بھی مقدمات ہیں آ دھی جنگ تو وہ جیت چکے ہیں۔

بہت سے لوگ تو اسے کھیل تماشہ سمجھ رہے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔انجوائے کر رہے ہیں ۔اس سے زیادہ وہ اسے اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں ۔حکومت کا کہنا ہے کہ ان دھرنوں کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان ہوا ہے اب بیٹھ کر اس کا بھی حساب کیا جانا چاہیے ۔یہ ضد نہیں کرنی چاہیے ، دھرنے اب بند ہونا چاہیے ، اس میںبہت سی غلطیاں بھی ہوئیں ہیں مثلا کچھ زیادہ ہی دھرنوں میں ڈانس کیا گیا جسے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے پسند نہیں کیا ۔کچھ ٹی وی چینل نے اسے بڑھا چڑھا کر بھی دکھایا اور بہت کچھ درست بھی تھا۔

ڈاکٹر صاحب کی محبت میں جو وہاں بیٹھے ہیں ان کے پاس گے بھی تو منہ پر رومال رکھ کر اگر انفکشن کا خطرہ تھا۔ تو اس سے پہلے جب پسینے کے بھیگے ٹشو مریدوں میں بانٹے گے تب خطرہ کدھر گیا تھا ۔اسی طرح جھوٹ تو آپ نے بھی بولا ہے جب کہا کہ ہمارے بندے پی ٹی وی میں نہیں گے آپ کو چاہیے تھا کہ کہتے ہاں غلطی ہوئی ہے بڑے بن کر اسے تسلیم کرتے پھر دلائل دیتے ۔ ایسی بہت سی خامیوں کو درست کر کے اور نئے جذبے کے ساتھ دوبارہ حملہ کرنا چاہیے خود ہی تو کہتے ہیں ،دونوں نے کہا ہے کہ بادشاہت ختم کرنے کے لیے ،غریبوں کو ان کے حق دلانے کے لیے،کرپشن کے خاتمے کے لیے ہم کو سلطان محمود غزنوی کی طرح سترہ حملے بھی کرنے پڑے تو کریں گے ۔

دونوں رہنماو ں کو سوچنا چاہیے ان کے ساتھ بہت سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر بیٹھے ہیں ان کے گھر ہیں ماں ،باپ ہیں ان کے روزگار تھے ،بیوی بچے تھے ۔ان کی سینکڑوں ضروریات ہیں ان کا گناہ کیا ہے آپ سے محبت کے علاوہ آپ پر اعتبار کرنے کے علاوہ آپ کو نجات دھندہ سمجھنے کے علاوہ ۔غلطی تو آپ کی ہے ،آپ کو علم نہیں تھا کہ جن سے آپ ٹکرانے جا رہے ہیں وہ اتنے کمزور نہیںہیں بھلا کوئی خوشی سے بھی خود کشی کرتا ہے استعفی کا یہ ہی مطلب ہے۔

اور وہ بھی جو آپ کی محبت میں ،ان کا بھی ذرا تصور کریں جو جیلوں میں رہے ،جن کے گھروں میں کریک ڈاون ہوا جن کے کاروبار ختم ہوگے جو لٹ گے ،برباد ہو گے آپ کی محبت میں ان کو اب گھر جانے دیا جائے عید گھر کرنے کی اجازت دی جائے اور جو جیلوں میں اب تک بند ہیں ان کی رہائی کے لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ وہ بھی گھر کو ا سکیں کئی آنکھیں ان کا انتظار کر رہی ہیں۔

Muhammad Akhtar Sardar

Muhammad Akhtar Sardar

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال