اسد درانی اور

Asad Durani

Asad Durani

تحریر : انجینئر افتخار چوہدری‎

29 مئی 2002 کی دوپہر کو جدہ ترحیل میں رہنے کے بعد لاہور پہچا۔ترحیل ایک ڈیپورٹیشن سینٹر ہے اس کے عنبر نمبر ۳ میں اکہتر دن گزارے۔قصور یہ تھا کہ جدہ میں مقیم نواز شریف کے ساتھیوں پر ایک قیامت ڈھائی گئی تھی جس پر احتجاج کیا۔مارچ 2002 میں قاری شکیل کو گرفتار کیا گیا مرحوم مسلم لیگ نون کے صدر تھے۔اسی دوران ایک قیمتی پاکستانی عظمت نیازی کو دھر لیا گیا تھا۔مجھے بھی خبریں مل رہی تھیں کہ اگلے گروپ میں آپ کا نام ہے۔ایک نوجوان وسیم صدیقی بھی گرفتار تھا۔وہ معصوم بھولا بھالا حامد صدیقی کا فرزند تھا۔جیل سے ایک دن عظمت نیازی کا فون آیا بھائی آپ پاکستان کی دلیر اخبار کے نمائیندے ہو ہمیں بے گناہ بند کیا گیا ہے۔ہمارے لئے کوئی نہیں بولتا سب جنرل مشرف سے ڈرتے ہیں۔

آپ ہماری آواز بنو۔نائن الیون کے بعد جنرل مشرف امریکہ کے پٹھو بن چکے تھے وہ اس علاقے کے تھانے دار تھے ان کا ہرکارہ جنرل اسد درانی جو آج کل اصغر خان کیس اور انڈین را کے چیف کے ساتھ مل کر قومی رازوں کو افشاء کرنے کے جرم میں عسکری ادارے نے بلا یا ہے موصوف سعودی عرب میں سفیر تھے جدہ قونصلیٹ میں کرنل طارق انہی کے نمائیندے تھے۔یہ وہ دور تھا جب نواز شریف سرور پیلیس میں رہتے تھے۔ان کا سعودی عرب میں قیام ایک معاہدے کی رو سے ہوا جس کا انہوں نے کبھی ذکر نہیں کیا۔یہ آپریشن اس وقت شروع ہوا جب بیگم نصرت شہباز دبئی جانے کے بہانے لاہور چلی آئیں اس پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ ایسا ویسا ہنگامہ نیچے کی زمین اوپر ہو گءی شائد اسلام آباد سے جنرل اسد درانی کو حکم ملا یا شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادری میں انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے اسی سلسلے کی کی کڑی تھی کہ سب سے پہلے قاری شکیل کو دھر لیا گیا انہیں تو میاں صاحب نے کنگ عبداللہ سے کہہ کر نکلوا لیا دوسرے باہر آنے والے بارہ منگا شکر گڑھ کے ارشد خان تھے دونوں اب اس جہاں میں نہیں ہیں۔

یہ سن گن تو کانوں تک پہنچ چکی تھی کہ اب گئے لیکن اس بات کا ڈر اس لئے نہ تھا کہ میں تو ن لوگ میں نہیں تھا ظاہر ہے اگر ہوتا تو صدر یا سیکرٹری تو ضرور ہوتا۔میں شروع ہی سے جماعتیہ ذہن رکھنے والا تھا دوسرا میں ایک صحافی تھا جس کی پہچ سرور پیلیس میں بھی تھی اور رسائی ہر جگہ۔اللہ گواہ ہے ظالم کے خلاف کبھی جھکا نہیں۔پتہ نہیں یہ ہم گجروں میں بیماری ہے پرائی لڑائی کو گھر لے آتے ہیں۔ایک شام ایک درد بھری آواز نے مجھے رلا دیا نیازی نے کہا بھائی میں دل کا مریض ہوں بڑا کاروباری ہوں میرا سب کچھ تباہ ہو جائے گا میرے لئے آواز اٹھاؤ۔میں ایک کالم لکھا جس میں ذکر کیا کہ سعودی عرب کے فقیروں کی کمائی لٹ رہی ہے اور اس میں سلطان جنرل اسد درانی ہے جو لوگوں کو پکڑ پکڑ کے بھیج رہا ہے۔ادھر مشرف ماں جائے طالبانوں کو کنٹینروں میں بند کر کے بھیج رہا تھا گوآنٹے نامہ بے میں اور ادھر جنرل اسد درانی کرنل طارق پاکستانیوں کو پکڑ کے جبری ملک کو بھیج رہے تھے۔

قونصل جنرل چودھری نواز تھے انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ پاکستانیوں کی گرفتاری میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں۔جدہ قونصلیٹ کی دو بلڈنگز تھیں میں نے کہا قسم اٹھائیں کہ اس پورے قونصلیٹ میں کسی کا ہاتھ نہیں وہ چپ ہو گئے۔چودھری صاحب بہت خیال رکھتے تھے شفیق مرنجان و مرنج شخص تھے برادری کا ہونے کے ناطے ویسے بھی پیار کرتے تھے۔ایک رمضان میں سب کو گھر بلایا میرا گھر جدہ میں پاکستان ہاؤس کہلاتا تھا اس پر سبز ہلالی پرچم بھی لہرایا جاتا تھا یوم پاکستان پر چراغاں بھی ہوتا تھا۔یہاں قونصل جنرل قونسلرز اور دیگر لوگ آتے مگر میں نے کرنل طارق کو کبھی نہیں بلایا۔شائد یہی میرا قصور تھا میں نے جمہوریت پر شب خون مارنے پر غاصبوں سے نفرت کی اور نواز شریف کا کھل کر ساتھ دیا۔اتنا کھل کر شائد کسی اور نے نہ دیا ہو۔

میرے پاس قلم تھا میں بے باک تھا نڈر تھا اور ہوں اور میں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ کچھ بھی ہو پاک فوج کو قبضہ نہیں کرنا چاہئے۔میں آج بھی فوج کا سب سے حامی ہوں مگر مارشل لاء کا سب سے بڑا مخالف بھی ہوں۔یوں ہمارا ایک رشتہ بن گیا۔ویسے بھی چودھری فیصل میرا بھتیجہ کیپٹن صفدر کا یار غار تھا اس حوالے سے ہمارے میاں نواز شریف گہرے تعلق بن گءے ۔میں نے حرم پاک میں سب سے پہلی ملاقات سعودی عرب پیپلز پارٹی کے صدر دلشاد جانی سے کرائی۔اور یہی تعارف آگے چل کر میثاق جمہوریت کی بنیاد بنا۔سردار شیر بہادر بعد میں جب صدر پیپلز پارٹی بنے تو وہ نواز شریف بی بی ملاقات کے رکن تھے۔جنرل اسد درانی آئے روز پاکستانیوں کو اٹھواتا۔اس دوران جنرل عبدالقیوم ملک جدہ آئے میں نے ان سے بھی ملاقات میں بتایا ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے مرغیوں کے دڑبے سے مرغی پکڑی جاتی ہے کڑاں کڑاں کرتی ہے پھر چپ لگ جاتی ہے۔لاہور کے میاں منیر نے جنرل مشرف سے بات کی شیخ رشید آگے بڑھے جنرل مجید اعجاز الحق سب نے کوشش کی جنرل مجید نیازی کے لئے اعجاز الحق شیخ رشید مسعود پوری کے لئے کوشش میں لگے رہے۔

ان میں صرف مسعود پوری باہر آئے۔ؤآئے روز میاں نواز شریف کے فون آتے تھے کبھی بیگم کلثوم کبھی مریم گھر فون کرتیں متعدد بار گھر گئیں اور حوصلہ دلاسہ دلاتے رہے۔ادھر عزیزیہ گھر میں میرے بچے اللہ کے حوالے تھے اور چھوٹے بھائی سجاد کے۔ایک روز میاں صاحب نے کہا چودھری صاحب آپ کو میری وجہ سے تکلیف ہوئی بتائیے کیا خدمت کروں میرا اللہ گواہ ہے رمضان ہے نماز پڑھ کے کالم لکھ رہا ہوں۔میر اجواب تھا میاں صاحب یہ اللہ کے کام ہیں میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر آپ جیسے مظلوم کا ساتھ دیا ہے دلیر گجر باپ اور ماں کا بیٹا ہوں آپ سے کبھی نہیں مانگوں گا میری دعا ہے آپ پاکستان جائیں اور وزیر اعظم بنیں آپ میرے لئے دعا کریں میں یہاں رہا ہو جاؤں اور بچوں کے لئے مزدوری کروں۔میری دعا قبول ہو گئی میاں صاحب پاکستان آ گئے انہوں نے شائد میرے لئے دعا نہیں کی اگر کی تھی تو شائد اس وقت قبول نہیں ہوئی۔جنرل درانی جو ابھی میں سمجھتا ہوں گرفت میں نہیں آیا اس کا نام ای سی ایل میں ہے قوم انتحابات میں مصروف ہو جائے گی اسے کون پوچھے گا۔

اصغر خان کیس کی بھنک سنتے ہیں پھر کوئی خبر نہیں ہوتی۔ؤقاری شکیل پندرہ دن اندر رہے باہر آئے تو چپ سی لگی تھی سیف موٹرز میں ایک دن آئے اور کہا چودھری صاحب آپ کا نام لسؤٹ میں سعودی عرب چھوڑ دیں۔اور بے شمار دوستوآں نے یہی مشورہ دیا۔دل نے تہیہ کر رکھا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے بھاگوں گا نہیں۔پاکستانی اسکول کی مجؤلس والدین کا مسئلہ تھا رضوان صدیقی جو فارن آفس میں ہیں ؤ انہوں نے بنیادی شرائط کچھ اس طرح کی رکھیں مجھے آؤؤٹ کر دیا اللہ بخشے جماعت اسلامی کے ایک مسعود جاوید ہوا کرتے تھے جوؤ کشمیر کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے میں ماہر تھے وہ دیکھتے ہی دیکھؤتے اسکولوں کے مالک بن گئے۔جن میں ایک اسکول ان کی موت ؤکے بعد چودھری اعظم کے حصے میں آیا ہو۔چودھری اعظمؤ بڑے اچھے نفیس انسان ہیں۔یہ کشمیر کمیٹی میں ؤہوتے تھے جس کا کام صرف ان ملٹری قونصلرز کا ؤحقہ پانی بھرنا ہوتا تھا۔یعنی چاپلوسوں کا ایک ایسا گروہ ؤجو مدح سرائی کے فن سے آشنا ہے۔ان لوگوں ؤنے سوائے کمیونٹی کی جاسوسی کے کچھ نہیں کیا اس کمیٹی کیؤ بڑے نام مسعود پوری،چودھری اعظم،رحمت ؤخان،منیر گوندل و دیگر تھے سال میں پانچ فروری کوؤ ایک اکٹھ ہوتا کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگتے یہ در اصل عسؤکری ونگ کے آگے پرزے تھے ان میں مرحوم مسعود جاوید بھی بڑا نام ؤتھا اس بندے کے خلاف میں نے سفیر پاکستان کو متعدد درخواستیں دیں اور ؤایک دن آیا کہ وہ ہمیں سننے جدہ آئے میں پہلے ہی ان کی آنکھ کا کنکر تھا۔

اجلاس ہوا ؤمیں نے مطالبہ کیا کہ مسعود جاوید کو سٹیج سے اتارا جائیؤ۔جنرل درانی کا لہجہ رعونت بھرا تھا کہا بیٹھ جاؤ جواب دیاؤ یہ کوئی گجرانوالہ کینٹ نہیں نہ آپ جرنیل حاجر سروس اؤور نہ میں حوالدار افتخار بات طریقے سے کریں میں نے بائیکاٹ کر دیا میرے ساتھ تین تہائی لوگ نکل گئے برادر ممتاز کاہلوں نے کہا چودھری ماریا گیاں ایں جواب دیا جان سے؟ اور اس کؤے چند دن بعد انیس مارچ دو ہزار دو کو دفتر سے دھر لیا گیا کوئی بارہ بجے کا وقت ہو گاؤ لنچ بریک ہونے والی تھی ضیف اللہ الزہرانی جو ایچ آر مینجر تھا اس کیؤ ساتھ ایک گندی سی توب پہنے ایک سعودی اینٹیلی جینس کا ہر کارہ تھا وہ لوگ میرے میز کے پاس آئے اور میں نے خوش آمدید کے ساتھ کہا بتائیں سرکیا خدمت کروں؟ میں اس کا چہرہ پڑھ چکا تھا یہ ایسے ہی تھا ایک بندہ نہ چاؤہتے ہوئے قربانی کا دنبہ ایک قصاب کے حوالے کر رہا تھاؤ۔اس نے میرا اقامہ دیکھا۔اور کہا جی ہاں یہی ہے۔مجھے اوڈیؤ سیکشن سے دفتر کی راہداریوں سے بڑی ورکشاپ سے لے جایا جا رہا تھا میں سب کو الوداعی نظروں کو دیکھ رہا تھا لیکن یحی فلسطینی انور لبنانی نور بی فلپینی نواز پاکستانی مجھ سے ہیلو ہائی کر رہے تھے۔ورکشا پ کے بغلی گیٹ پر ایک پولیس کی گاڑی کھڑی تھی۔مجھے ایک شرطے نے دھکہ دیا اور پیچھؤے کالر سے پکڑا میں نے اسے کہنی اس طریقے سے ماری کہ وہ دہرا ہو گیا۔مجھؤے وہ لفظ یاد ہیں جو میں نے کہے آج سولہ سال گزر ے ہیں۔ؤلیکن ایسا لگتا ہے کل کی بات ہے کہا ابعد یا ابن حلال مانی حرامی انا رجال انا رجال اللہ لعن شکل الشیطان و مشرف۔ؤ اس ؤکا ترجمہ ہے دور ہٹ ابن حلال میں کوئی چور نہیں ہوں اللہ کی لعنت ہو شیطان پر اور مردود مشرف پر۔

کیپٹن نے سنا اور کاغذات دیکھے اس پر لکھا ہو اتھا جماع نواز شریف۔کہ یہ نواز شریف کا ساتھیؤ ہے۔مظلوم کا ساتھ تھا ہوں اور رہوں گا۔یہی زندگی کا مقصدہے۔مر جاؤں کبھی مارشل لاء کا حامی نہیں ہوں گا۔وہاں سے مجھے عمارہ دلۃ لے گئے وہاں ان سے کہا کہ گاڑی سے نہیؤں اتروں گا اے سی کی ونڈو کھولو انہوں نے بصد احترام کہا مانا۔یہاں سے جب ایک بڑے گول چکر کے پاس پہنچا بھائی جان کو تسلی سے فون کیا بیگم کو تو ساماکومیں ہی بتا چکا تھا۔ کوئی ڈیڑھ بجے کے قریب ترحیل میں پہنچایا گیا کہنے لے فوٹو کھینچوائی ہے پندرہ ریا ل دو میں نے کہا بابے تنے سے لے لو کیپٹن بڑا عظیم شخص تھا اس نے نہ تو میرے فنگر پرنٹ لینے دئیے اور نہ ہی دوسرے لوازماتؤئ۔ٹھیک ڈیڑھ بجے ایک بڑا گیٹ کھلا۔یہ ایک پاکستانی کو جنرل درانی کا تحفہ تھا اور جنرل مشرف کی جانب سے ستائیشؤ۔لعنت ہے ان لوگوں پے جو مارشل لاء کا مطالبہ کرتے ہیں و۔بھائیو! مر جانا مگر کبھی فوجی کی حکومت نہ مانگنا یہ فوج سرحدوں پر ہی اچھی ہے۔میں نے زندگی میں ضیاء کا ماشل لاء بھی دیکھا اور مشرف کا بھی خدا واسطے کبھی خواہش نہ کرنا۔ہم نے وہ دن کیسے گزارے یہ میرا اللہ جانتا ہے۔

میری بیٹی ربیعہ روز امی سے کہتی ابو کہاں ہیں وہ کہتی مدینہ گئے ہیں جمعرات کے دن شام میں بلڈنگ والے جب ساحل سمندر جاتے تو وہ ضد کرتی ابو کیوں نہیں آئے۔ایک روز بیگم نے ایک خط جنرل درانی کے نام لکھا جس میں منت کی کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے خاوند کو معاف کیا جائے ۔یہ خط شکیل نے دیکھ لیا جو بمشکل تیرہ چودہ سال کا تھا اس نے خط پھاڑ دیا اور یہ کہہ کر بلک بلک کے رونا شروع کر دیا نہیں ہم چھوٹے چھوٹے نہیں ہیں میرا باپ مر جائے گا معافی نہیں مانگے گا۔سب لمبی لمبی معافیاں مانگ ے لگ گئے میراے اللہ نے ہمت دی۔میں نے کسی سے معافی نہیں مانگی۔اللہ بھلا کر سول سروس والوں کا ان لوگوں نے ہمارا خیال رکھا۔اسی دوران اپریل میں میرے چچا سسر فوت ہوئے چودھری نواز کی بیگم گھر آئیں۔ بیگم سے کہا پاسپورٹ دیں آپ کو بھیج دیتے ہیں انہوں نے صاف انکار کیا۔میرا شیر اور دلیر بھائی میرے ساتھ کھڑا تھا سجاد نے گھر سنبھلا ۔میرے دوستوں نے تسلی دی۔ہم کیسے آئے یہ الگ داستاں ہیں مجھے الگ سے حاجی کیمپ سے روانہ کیا گیا پورے جہاز میں اکیلا آدمی تھا بیگم بچے جہاز میں ملے۔ایئر پورٹ پر بڑے دوست آئے کہ شائد مجھے مل لیں گے لیکن مجھے حاجیوں والے ایرئے سے بھیجا گیا۔ اس منحوس شخص درانی کے ساتھ تین چار بار کتے والی ہوئی فلیش مین ہوٹل میں اور ایک دو بار مختلف ھگہوں پر۔کرنل طارق ایک دن فیملی کے ساتھ میڈونلڈ پنڈی میں کھانا کھا رہا تھا مجھے دیکھ کر بچوں سمیت باہر نکل گیا۔میں نے پیچھے سے بڑی آوازیں دیں۔لیکن بزدل بھاگ گیا۔میں نے مشرف سے عدلیہ بحالی تحریک میں بدلہ لیا اسے نکال کے دم لیا۔ایک بار یہ منحوس بھی کہنے لگا کہ مشرف کے خلاف ہم بھی ساتھ ہیں میرا جواب تھا گندہ پتھر نہیں چلے گا۔

یہ تو کالم ہے دل چاہتا ہے کہ ان اکہتر دنوآں پر ایک کتاب لکھوں۔یہ جنرل اسد درانی ہے جو اللہ کی پکڑ میں ہے۔ساتھیو موقع ملا تو اس کتاب میں ذکر کروں گا کہ جدہ کی ترحیل کے قیدیؤ کون تھے اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔یہ داستاں اس لئے نہیں کہ واہ واہ چاہتا ہوں لیکن یہ لکھ رہا ہوں اپنی موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے کہ کبھی ظالم کے سامنے نہیں جھکنا۔اللہ نے مجھے اسی سعودی عرب میں چھ ہزار کی نوکری سے نکالا تھا وہی مجھے چالیس ہزار کی نوکری پر لے گیا۔اسی نے عزت دی۔شائد ہی کوئی پاکستانی ہو گا جسے اللہ نے اتنا نوازا۔اگر وہ فنگر پرنٹ ہوتے تو شائد میں سعودی عرب داخل نہ ہو پاتا وہ نوجوان کیپٹن یاد آ یا۔میرے رہا ہونے کے بعد مسعود پوری رہا ہو گئے اس لئے کہ کرنل طارق اور درانی مجھے ہی نکالنے پر تلے ہوئے تھے۔بے جی ملیں آتے ہی صدمے سے بیمار ہو گئیں اور سترہ دن پمز میں رہیں اور دنیا سے چلی گئیں یہ تھی میری قربانی۔بعد میں جب نواز حکومت جمہوریت کے تمغے دے رہی تھی تو میں تحریک انصاف میں تھا۔انہیں ایوارڈ ملے جو میری کہانیاں مجھ سے سن کر چھاپتے رہے۔یہ زمانے کا رنگ بھی دیکھا۔ اگر یہ داستاں اچھی لگی تو بتائیے گا۔بس سبق یہ ہے کہ جمہوریت کتنی بھی بد ہو اسے ہاتھوں سے نہ جانے دیجئے گا۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چوہدری‎