آنگ سان سوچی

Aung San Succi

Aung San Succi

تحریر : علی عبداللہ
آخر کار بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی اور نوبل انعام یافتہ میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی کئی ہفتوں کی پراسرار خاموشی توڑنے کے لیے دنیا کے سامنے آ کھڑی ہوئیں ۔ آج ان کے خطاب میں دنیا امید کر رہی تھی کہ وہ اپنے ملک کے مظلوم اور بے گھر روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں کچھ بولیں گی اور اس مسئلے کا پرامن حل پیش کر کے ہجرت کرنے والوں کو واپس آنے پر آمادہ کریں گی لیکن ایسا سوچنے والوں کو مکمل مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔اپنے خطاب میں انہوں نے میانمار فوج کی جانب سے قتل عام، ریپ اور روہنگیا مسلمانوں کے گاؤں کو جلانے کے الزامات کو مکمل طور پر رد کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز اس بات کی پابند ہیں کہ ان کے کسی آپریشن میں سویلینز کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور مکمل قانون کے مطابق پرامن طریقے سے اپنے کام کو سرانجام دیا جائے گا ۔

سوچی نے ایک موقعہ پر کہا تھا کہ،
“”I do protect human rights , and I hope I shall always be looked up as a champion of human rights.”
یعنی وہ انسانی حقوق کی حفاظت کرنے میں ہمیشہ چمپئین کے طور پر دکھنا چاہتی ہیں لیکن افسوس موجودہ صورتحال میں ان کا منفی کردارانہیں بزدل اور شکست خوردہ بنا چکا ہے ۔

19 جون 1945 کو برما میں پیدا ہونے والی آنگ سان سوچی لبریشن موومنٹ لیڈر جنرل آنگ سان کی بیٹی ہیں ۔ جنرل آنگ سان کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں ہی برما کو 1948 میں برطانیہ سے آزادی ملی اور جنرل کو ملک کے بانیان میں شمار کیا جاتا ہے ۔ سوچی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے بانیوں میں سے ہیں اور یہ پارٹی کی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز بھی رہیں ۔ 1990 کے الیکشن میں ان کی پارٹی نے ملک میں امتیازی کامیابی حاصل کی لیکن فوج کی مداخلت سے انہیں نظر بند کر دیا گیا اور تقریباً 15 سال نظر بند رہنے کے بعد 2010 میں انہیں رہائی ملی اور پھر سے انہوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۔ لیکن اس بار وہ پرانی سوچی جسے انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے جدوجہد پر ایشیاء کا منڈیلا بھی کہا جاتا تھا نہیں تھیں بلکہ ایک مختلف سوچی کے روپ میں ملٹری دباؤ کا شکار ہو کر روہنگیا مسلمانوں کے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بنیں جو کہ ابتک جاری ہے ۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 25 اگست سے ابتک کم ازکم 210 گاؤں مکمل طور پر نذرآتش کیے جا چکے ہیں ۔جبکہ بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ میانمار بارڈر پر بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں تاکہ مہاجرین بنگلہ دیش کی جانب ہجرت نہ کر سکیں ۔ لیکن اس کے برعکس مس سوچی کا کہنا ہے کہ دنیا میانمار میں ہونے والی ترقی کی طرف کیوں نہیں دیکھتی ۔ دنیا کو میانمار میں ہونے والی ترقی کو تسلیم کرنا چاہیے اور وہ ان مسلمانوں کو کیوں نہیں دیکھتی جنہیں صحت اور دیگر سہولیات تک رسائی حاصل ہے ۔

سوچی کی یہ طوطا زبان درحقیقت ان فوجی جرنیلوں کے رٹائے ہوئے الفاظ ہیں جنہوں نے اسے تقریباً دو دہائیوں سے اپنے حصار میں قابو کر رکھا ہے اور اسے اہم سیاسی شخصیت بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ سوچی کی حکومت میں شامل عہدیداران روہنگیا مسلمانوں پر کئی دہائیوں سے ظلم و ستم اور شہریت سے محروم رکھنے جیسے جرائم کے ذمہ دار ہیں ۔ ان کے ہاتھوں بے شمار گھر جلنے اور ریپ کے واقعات سامنے آنے کے باوجود سوچی نے ان پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ نہ صرف یہ بلکہ ایک فیس بک پیج جو کہ سوچی کے دفتر سے ہی منسلک ہے کے مطابق بین الاقوامی امدادی تنظیمیں ان روہنگیا مسلم گروپوں کو سپورٹ کر رہی ہیں جو پولیس اور فوج پر حملوں میں ملوث ہیں ۔ جس کے نتیجے میں سرکاری طور پر فوجی آپریشن کو دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں کا نام دیا گیا ہے ۔

یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ 72 سالہ سوچی جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے پر کبھی منڈیلا اور مدر ٹریسا جیسی شہرت اور پسندیدگی کا مقام رکھتی تھی اور اسی جدوجہد کے بدلے نوبل انعام بھی حاصل کیا اب دنیا بھر میں تنقید اور ناپسندیدگی کا شکار ہیں ۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ رخائن میں جاری فسادات پر مجرمانہ خاموشی ہے ۔ جبکہ دوسری طرف میانمار کے فوجی جرنیلوں نے جو کہ ملک پر تقریباً آدھی صدی سے حکمرانی کر رہے ہیں وسائل سے مالا مال برما میں غریب معیشت اور غیر مستحکم سیاسی حالات پیدا کر کے میانمار کو برے حالات سے دوچار کر دیا ہے ۔نہ صرف اتنا بلکہ انہوں نے ہمیشہ سے اہم حکومتی فیصلوں کا حق بھی اپنے پاس ہی رکھا ہے ۔ سوچی ہمیشہ سے فوجی جرنیلوں کے اشاروں پر ناچتی رہی ہیں اور انکو اب جلد اپنے غیر جانب دارانہ فیصلوں کو متعارف کروانا ہو گا جن کا وہ کافی دفعہ وعدہ بھی کر چکی ہیں ۔

2010 میں مس سوچی نے کہا تھا کہ وہ ایک سیاستدان کے طور پر نظر آنا چاہتی ہیں نا کہ وہ کوئی انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر نظر آئیں ۔اس بیان پر بہت سے نوبل انعام حاصل کرنے والی شخصیات نے گہری مایوسی کا اظہار بھی کیا تھا ۔ نوبل انعام یافتہ بنگلہ دیشی اکانومسٹ محمد یونس کا کہنا تھا کہ اگر وہ خود کو سیاست دان کہلوانا چاہتی ہیں اور جموری اقدار انہیں نہیں بھاتے تو انہیں نوبل انعام قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ دنیا کئی دہائیوں تک ان کے ساتھ کھڑی رہی ہے لیکن آج وہ آنگ سان سوچی کا وہ عکس ہیں جس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں اپنا مؤثر کردار ادا کیا ہے اور روہنگیا مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم بھی رکھا ہے ۔ اب ہم صرف پرانی سوچی کے لوٹنے کی دعا ہی کر سکتے ہیں ۔ جنوبی میانمار کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ ہم سوچی پر اعتماد نہیں کرتے کیونکہ وہ فوج کی ہی پیداوار ہیں ۔ یہ اپنے شہریوں کے مقابلے میں فوج کی زیادہ وفادار ہیں اور یہ قومی مفاد اور وعدوں کی بجائے صرف فوج کو ہی سپورٹ کرتی ہیں ۔

بی بی سی سے ایک انٹرویومیں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں لگتا ہے کہ مغرب میں لوگ انہیں صحیح نہیں پہچانتے اور ان کی کردار کشی کی جاتی ہے ۔لوگ آپ سے یہ امید بھی کرتے ہیں کہ آپ مدر ٹریسا اور مہاتما گاندھی کے نقش قدم پر چلیں یا پھر آپ میں مارگریٹ تھیچر جیسی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ تو سوچی نے جواب دیا کہ نہیں میں صرف ایک سیاست دان ہوں ۔ میں نہ مدر ٹریسا جیسی ہوں اور نہ ہی مارگریٹ تھیچر جیسی ۔ مہاتما گاندھی ایک ہوشیار سیاست دان تھے ۔ اس ساری کشیدہ صورتحال میں سوچی کو جلد از جلد روہنگیا مسلمانوں کے حقوق واپس دلانے ہوں گے اور بنگلہ دیش ہجرت کرنے والوں کو دوبارہ میانمار میں آباد کروانے کی مخلص کوششیں کرنا ہوں گی ۔ وگرنہ عالمی دباؤ مزید بڑھ کر خطے میں کشیدگی بڑھا سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض ممالک خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے فوجی مداخلت بھی شروع کر دیں۔

Ali Abdullah

Ali Abdullah

تحریر : علی عبداللہ