آسٹریلیا پناہ کے متلاشیوں سے بدسلوکی کو ‘نظر انداز’ کر رہا ہے: رپورٹ

Refugees

Refugees

پاپوا نیو گنی (جیوڈیسک) آسٹریلوی حکومت کا اصرار ہے کہ اس اقدام کا مقصد سمندر کے ذریعے خطرناک سفر کرنے والوں کو روکنا اور دوسروں کو اس خطرناک کوشش سے باز رکھنے کے لیے پیغام دینا ہے۔

انسانی حقوق کی دو بین الاقوامی تنظیموں “ایمنسٹی انٹرنیشنل” اور “ہیومن رائٹس واچ” نے الزام عائد کیا ہے کہ آسٹریلیا جنوبی بحرالکاہل کے ایک جزیرے پر قائم کیمپ میں پناہ گزینوں سے ہونے والی بدسلوکی کو نظر انداز کر رہا ہے۔

یہ کیمپ غیرقانونی طریقے سے کشتیوں پر سوار ہو کر آسٹریلیا آنے والے تارکین وطن کو روکنے کے بنایا گیا تھا اور دونوں تنظیموں کے کارکنوں نے خفیہ طور پر ناؤرو نامی جزیرے پر اس کیمپ کا دورہ کر کے یہاں سے معلومات جمع کیں۔

کشتیوں کے ذریعے آنے والے تارکین وطن کو حکام روک کر پاپوا نیو گنی اور ناؤرو کے جزائر پر قائم حراستی کیمپوں میں بھیج دیتے ہیں۔

آسٹریلوی حکومت کا اصرار ہے کہ اس اقدام کا مقصد سمندر کے ذریعے خطرناک سفر کرنے والوں کو روکنا اور دوسروں کو اس خطرناک کوشش سے باز رکھنے کے لیے پیغام دینا ہے۔

لیکن انسانی حقوق کی ان دونوں تنظیموں کی طرف سے جاری کی گئی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ناؤرو کے کیمپ میں “غیر انسانی سلوک” کو توجہ نہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں کشتی کے ذریعے آسٹریلیا آنے والے تارکین وطن کو یہ بتایا جائے کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک ہو سکتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سینیئر ڈائریکٹر ایان نیسٹیٹ کہتی ہیں کہ جو کچھ انھوں نے ناؤرو میں دیکھا اسے الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔

“میں صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ یہ سب دانستہ اور حکمت عملی کے تحت کی جانے والی زیادتی ہے۔ ہم کسی ایک واقعے کی بات نہیں کر رہے، ہم رجحان کی بات کر رہے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ آسٹریلوی حکومت نے اسے چھپانے کے لیے کوئی خاص محنت کی، وہ دراصل اسے کشتی کے ذریعے سفر کرنے والے لوگوں کے لیے ایک مثال بنا رہی ہے۔”

آسٹریلیا کی طرف سے اس رپورٹ پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

انسانی حقوق کی ان دو تنظیموں نے آسٹریلیا میں پناہ کے متلاشی 80 سے زائد افراد سے بات چیت کی جو ان 1200 افراد میں شامل ہیں جنہیں ناؤرو میں منتقل کیا گیا۔ ان میں افغانستان، عراق، ایران اور پاکستان کے شہری شامل ہیں۔