سردار کی جیت حکومت کا امتحان

Ayaz Sadiq

Ayaz Sadiq

تحریر: روہیل اکبر
لاہور کے انتخابی دنگل میں سردار ایاز صادق کی جیت بلا شبہ مسلم لیگ ن کی بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ رشتہ داری میں وزیر اعظم کے بھانجے محسن لطیف اپنی جیتی ہوئی سیٹ ہار چکے ہیں جو حکومت کے لیے ایک امتحان ہے اور اس سے اندازہ لاگایا جاسکتا ہے کہ لوگوں نے میاں نواز شریف کو ووٹ نہیں دیے بلکہ علیم خان کی مخالفت میں سردار ایاز صادق کی شخصیت کو ووٹ دیے ہیں اگر میاں نواز شریف کو ووٹ ملتے تو محترمہ کلثوم نواز کے بھانجے محسن لطیف کو شکست نہ ہوتی بلکہ وہ ریکارڈ ووٹ حاصل کرتے یہ مسلم لیگ ن کے ان قائدین کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر پارٹی پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں جبکہ یہ تحریک پاکستان کے قائد عمران خان کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ انہوں نے اپنے پرانے پارٹی کارکنوں کو ٹکٹ دینے کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کے محافظوں کو این اے 122 میں پارٹی ٹکٹ جاری کردیا۔

بے شک اب ہونے والے الیکشن پیسے کے بل بوتے پر لڑے جاتے ہیں مگر پاکستان تحریک انصاف کا جاری ہونے والا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت تصور ہوتا ہے اور اگر یہ ٹکٹ کسی پرانے کارکن کو دیدیا جاتا تو سرمایہ داروں نے اسکے پیچھے بھی پیسہ پانی کی طرح بہانا تھا اور اس بات کا اندازہ عمران خان سے بہتر کون کرسکتا ہے مگر بدقسمتی سے عمران خان کے اس قسم کے فیصلوں سے نہ صرف تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں میں مایوسی پیدا ہورہی ہے بلکہ غریب ،مزدور اور محنت کش ووٹر بھی اپنا ارادہ تبدیل کررہے ہیں جسکا اثر این اے 122میں واضح دیکھا جاسکتا ہے اب بھی دونوں جماعتوں کے رہنماء اپنے اپنے خول سے باہر نکل کر عوام کی بھلائی کے لیے منصوبے بنائیں۔

Metro Bus

Metro Bus

تاکہ دن بدن موت کے منہ میں جانے والی غریب عوام بھی اپنی زندگی کے کچھ دن سکون سے بسر کرسکے وزیر اعلی پنجاب کا لاہور ،راوالپنڈی اور ملتان میں میٹرو بس کا منصوبہ انتہائی اہم اور عوامی نوعیت کا منصوبہ بلا شبہ اس سے غریب عوام کو بہت سکون ملا ہے اور یہ ایک اچھی کاوش ہے جبکہ اورنج لائن میٹرو ٹرین بھی عوام کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں کو ملانے والی سڑکوں کی جو صورتحال ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں جن پر کئی کئی سالوں سے کام نہیں ہوا اور جن محکموں کی ذمہ داری ہے وہ اس پر توجہ نہیں دیتے خانیوال سے لودھراں تک بنی ہوئی سڑک کا جو برا حشر ہو چکا ہے۔

وہ ناقابل بیان ہے اور جو اس سڑک پر سفر کرچکے ہیں بلخصوص رات کے وقت انہیں تو بہت زیادہ سبق مل چکا ہوگا گذرنے والی بکرا عید کے بعد میں نے اس سڑک پر دوسری بار سفر کیا پہلی بار آج سے کوئی 4 سال قبل وزیر اعلی پنجاب کے میڈیا کوآرڈینیٹر خالد بٹ اور پاکستان ریلوے کے موجودہ ڈی جی پی آر روف طاہر کے ہمراہ بہاولپور سے واپسی پر اس سڑک سے لاہور آئے تھے اور دوسری بار اب عید کے بعد سفر کیا ہے آج سے 4 سال قبل بھی سڑک موت کا منظر پیش کررہی تھی اور اب بھی جگہ جگہ گڑھے اور برائے نام سڑک گاڑیوں کی تباہی کا باعث بن رہی ہے لودھراں سے خانیوال تک تقریباڈیڑھ گھنٹے کا سفر 4گھنٹے پر پھیل جاتا ہے اور رات کے وقت اس سڑک پر گاڑی چلانا انتہائی تکلیف دہ بن جاتا ہے۔

میں حیران ہوں کہ اسی سڑک سے وہاں کے ایم پی اے اور ایم این اے بھی سفر کرکے لاہور آتے ہونگے اور انہوں نے بھی اس سڑک کے لیے کچھ نہیں اگر محکمہ ہائی وے اس سڑک پر جو ٹوٹ پھوٹ کے باعث کھنڈر بن چکی ہے پڑنے والے بڑے بڑے گڑھوں پر مٹی ہی ڈال دے تب بھی یہ سڑک کچھ بہتر ہوسکتی ہے مگر کمیشن خور مافیا اس وقت تک کوئی کام نہیں کرتا جب تک انہیں اس بات کی امید نہ ہو کہ اس کام کے بدلے نکی جیب میں بھی کچھ آئے گا جبکہ اس محکمہ میں جو بیلدار کام کررہے ہیں انہیں افسران نے اپنے گھروں میں ذاتی ملازم بنا رکھا ہے خادم اعلی پنجاب اگر کسی روز اس سڑک پر سفر کریں تو شائد اس سڑک کی حالت بہتر ہوسکے ورنہ تو کوئی آثار نہیں ہے اور ایسی ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر سفر کرنے کے بعد خیال آتا ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے افراد لاہور نقل مکانی کیوں کرتے ہیں کیونکہ وہاں پر جی ٹی روڈ کا اتنا برا حال ہے تو جو سڑکیں اندر دیہات تک جاتی ہیں۔

Village

Village

انکا کیا حشر ہوگا جہاں پر ٹریکٹر ٹرالیوں کا بھی سلسہ ہے جبکہ ہمارے ان دیہاتی علاقوں میں اچھی تعلیم اور بہتر صحت کی سہولیات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتااس لیے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور انکی حکومت سردار ایاز صادق کی تقریبا 4 ہزار ووٹوں سے ہونے والی جیت پر خوشیاں منانے کی بجائے اس بات کی فکر کریں کہ اوکاڑہ میں انکے امیدوار کا کیا حشر ہوا ہے اور محسن لطیف نے اپنی جیتی ہوئی سیٹ لاہور سے کیوں ہار دی ہے 40ہزار ووٹوں سے جیتنے کے دعوے کرنے والوں کے لیے بھی یہ شرم کا مقام ہے اس لیے اب بھی وقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت لاہور کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی لاہور جیسی سہولیات فراہم کرنے کے لیے حرکت میں آئے۔

ورنہ اگر عوام حرکت میں آگئی تو پھر اوکاڑہ جیسی صورتحال کہیں پورے ملک میں نہ پھیل جائے جہاں ایک آزاد امیدوار نے مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو دھول چٹا دی رہی بات پیپلز پارٹی کی اسے اسکی پالیسیوں نے تباہ وبرباد کردیا ہے اور لاہور کے الیکشن میں بہت کم لوگ ایسے ہونگے جن کو پیپلز پارٹی کے امیدوار کا نام بھی یاد ہواس لیے مسلم لیگ ن کی حکومت کو سردار ایاز صادق کی کامیابی سے خوشی کے ساتھ ساتھ سبق بھی حاصل کرنا چاہیے کیونکہ اب باتوں کا وقت گذر چکا ہے اور حکومت کو عملی طور پر کام شروع کردینے چاہیے تاکہ لاہور سے دور دراز کے لوگ بھی اپنے اپنے علاقوں میں سکھ کا سانس لے سکیں۔

Roheel Akbar

Roheel Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03466444144