ظلم اوڑھ رکھا ہے

ظلم اوڑھ رکھا ہے
شہر کی فصیلوں پر
خامشی کے پہروں میں
در بدر محبت کے
بے صدا بھکاری ہیں
بھوک’ پیاس کے مارے
ان گنت شکاری ہیں
لمبے چوڑے رستوں پر
بے نشاں، بے منزل
گمشدہ سے راہی ہیں
اونچے اونچے محلوں میں
چلتے پھرتے درباری
گرتے پڑتے سب قیدی
بول بھی تو کیا پائیں
کون ان کی سنتا ہے
کون ان کو سمجھے گا
بادشاہ کے کانوں میں
گھنگھروں کی آہٹ ہے
اس کی لال آنکھوں پہ
رات کی سیاہی کی
اس کے حبس بے جا میں
بلبلیں سسکتی ہیں
شوخیاں لرزتی ہیں
کوئی دیکھ پائے کیا
ان سیاہ بختوں کو
شہر کی فصیلوں نے
سب کو گھیر رکھا ہے
بادشاہ اعلیٰ نے
ظلم اوڑھ رکھا ہے

Oppression

Oppression

تحریر : دُرِ نجف