پلٹ آئے

دریچہ بند تھا ہم بھی صدا دے کر پلٹ آئے
ہوا کے ہاتھ میں اپنا پتا دے کر پلٹ آئے

کسی کے نام کی تختی لگی دیکھی جو اس در پہ
بڑے ہی کرب میں گھر کو دعا دے کر پلٹ آئے

نجانے کتنے ہی چہرے تیری خاطر پریشاں تھے
ہمی اِک درمیاں تھے راستہ دے کر پلٹ آئے

کہاں تک معتبر کہتے تجھے راہِ محبت میں
ہم اپنے آپ کو تیری سزا دے کر پلٹ آئے

وہ میری ذات کی یکتائیوں کو پوجنے والے
میرے ہاتھوں میں ٹوٹا آئینہ دے کر پلٹ آئے

ہماری بے گناہی باعثِ الزام تھی لیکن
دلِ بے تاب کو کچھ حوصلہ دے کر پلٹ آئے

ہمیں تو عمر بھر محرومیاں آنسو رلائیں گی
اگر تم بھی کسی کا واسطہ دے کر پلٹ آئے

کبھی یوں بھی ہوا ساحل وفا کی رہگزاروں میں
ہمارے راہبر ہم کو دغا دے کر پلٹ آئے

Sad Couple

Sad Couple

تحریر : ساحل منیر