بدین کی خبریں 30/10/2015

Badin

Badin

بدین (عمران عباس) ضلع بدین ساحلی علاقے میں ہونے کے باعث سردی شروع، گرم کپڑے، مونگ پھلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، ضلع بدین کے بیشتر علاقوں بلخصوص ساحلی پٹی میں سردی شروع ہوچکی ہے، کوئیٹا اور دیگر پھاڑی علاقوں میں سردیاں شروع ہونے کے بعد ضلع بدین میں اس کا اثر جلد ہی شروع ہوجاتا ہے اور اس سال بھی پھاڑی علاقوں میں برف باری شروع ہونے کے بعد ضلع بدین اور اس کے ساحلی علاقوں میں سردیوں نے ڈھیرے ڈال دیئے ہیں جس کے باعث گرم کپڑوں اور سردیوں میں کھائی جانے والی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے ، بدین شہر کے ہر راستے پرلنڈا بازاریں سج گئی ہیں جن میں نئے اور پرانے کپڑے لینے والوں کا رش لگا رہتا ہے ، کپڑے لینے والوں میں سے اکثر کا ہی کہنا ہے کہ سردیاں شروع ہونے پر ہی گرم کپڑوں کا اتنی قیمت رکھی گئی ہے تو سخت سردیوں میں ان کے دام کیا ہونگے کچھ کہا نہیں جا سکتا، سردیوں میں کھائی اور پی جانے والی اشیاءجس میں مونگ پھلی، چائنیس سوپ، انڈے اور دیگر اشیاءکی فروخت میں اضافہ ہوگیا ہے جب کی سوپ بیچنے والے ٹھیلوں اور ہوٹلوں پر لوگوں کا رش بڑھ گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Badin LHV

Badin LHV

بدین(عمران عباس )ڈی ایچ او بدین آفیس میں اکاﺅنٹنٹ سپروائزر پر تشددکرنے اور جھوٹے مقدمے دائر کرنے کے خلاف لیڈی ہیلتھ ورکز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے سینکڑوں ملازمین کا دوسرے روز بھی احتجاجی مظاہرہ و دھرنا، دو دن قبل کچھ لیڈی ہیلتھ ورکز کی جانب سے اکاﺅنٹنٹ سپروائزر جہانگیر ساریجوکو تشدد کرکے اسے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا جس کے خلاف ضلع بدین کی دیگر لیڈی ہیلتھ ورکزاور پیرا میڈیکل اسٹاف کے سینکڑوں ملازمیں نے دوسرے روز بھی ڈی ایچ اور آفیس اور ایس ایس پی آفیس کا گھیراﺅ کیا ا ور وہیں پر دھرنا دیکر بیٹھ گئیں، ریلی اور دھرنے کی قیادت کرتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر نیشنل پروگرام تسکین خواجہ، شاہد، الہڈنو اور دیگر نے میڈیا کو بتایا کہ ٹنڈو غلام علی کی ہیلتھ ورکز کے ساتھ آنے والے نا معلوم لوگوں نے ایک پلاننگ کے تحت آفیس کے اندر گھس کر جہانگیر پر تشدد کیا اور اس پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے اسے پولیس کے حوالے کردیا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ جہانگیر پر دائر کیس کو ختم کرکے ملوث افراد کے خلاف فوری کاروائی کی جائے ، بصورت دیگر ہمارا احتجاج جاری رہے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدین(رپورٹ۔عمران عباس)ضلع بھر میں بلدیاتی انتخابی مہم تیز، گھر، گلیاں اور چوراہے دلہن کی طرح سجنے لگے، الیکشن مہم کی دوڑ میں غریب امیدوار بھی پیچھے نہیں،ایک علاقے اور ا یک ہی برادری سے دو اُمیدوار میدان میں موجود ہونے سے برادریوں کو ووٹ دینے کے فیصلے میں دشواری ،پیپلز پارٹی کے ناراض کارکنان ٹکٹ نا ملنے کے باعث آزاد الیکشن لڑنے پر مجبور، ناراض اُمیدواروں میں پیپلز پارٹی ضلع بدین کے صدر کا بھائی بھی شامل ،اُمیدواروں کی جانب سے گھر گھر جاکر ووٹ دینے اور جتوانے کی اپیل،الیکشن کیمپس قائم۔ 19نومبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے باعث ضلع بدین میں الیکشن مہم نے تیزی پکڑ لی ہے،ضلع بدین کے شہروں کے اکثر گھر، گلیاں اور چوراہے مختلف پارٹیوں اور آزاد اُمیدواروں کی جانب سے لگائے گئے پینا فلیکس اور اسٹیکرز کے باعث دلہن کی طرح سجتے دکھائی دینے لگے ہیںجبکہ غریب اُمیدوار بھی کم سے کم بیس ہزار کے پینا فلیکس اور اسٹیکر پرنٹ کرواکر الیکشن مہم کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہے، بدین شہر کے 14وارڈزمیں سے مختلف پارٹیوں اور گروپس کی جانب سے اپنے نامزد اُمیدواروں کے لیئے جوڑ توڑ شروع کردی گئی ہے جس کے بعد شہر کے بیشتر اُمیدوار مرزا اور پیپلزپارٹی کے اُمیدواروں کے سامنے دستبردار ہوچکے ہیں جبکہ مظبوط اُمیدواروں کی جانب سے اپنے وارڈز میں موجود گھراور دکانوں پر جانے اور ووٹرز کو منت سماج کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے، بدین ضلع جو ہمیشہ پیپلز پارٹی کا گڑہ رہا ہے اور اسی ضلع کو پیپلز پارٹی کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے لیکن اس بار پیپلز پارٹی کو بیشتر چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے ، شہید بھٹو کے دور سے لیکر شہید محترمہ بینظیر دور تک کوڑے کھانے والے اور جیلیں کاٹنے والے کارکنان کو نظر انداز کرکے پارٹی میں شامل ہونے والے اور دیگر پارٹیوں سے ہجرت کرکے آنے والے نئے کارکنان کو ٹکٹیں جاری کرنے کے بعد پرانے جیالوں نے آزاد امیدوارکے طور پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جن میں ضلع بدین کے صدر اور ایم این اے کمال خان چانگ کے بھائی بھی شامل ہیں جو اپنے ہی علاقے سے پیپلز پارٹی کے سامنے الیکشن لڑیں گے، اس ضلع کے بیشتر علاقوں میں گذشتہ 20سالوں سے سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ اور سابق اسپیکر قومی اسیمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا راج رہا ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت سے اختلافات کے بعدماضی میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے قریبی دوست اب ان کے سیاسی مخالفین بن چکے ہیںجبکہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب سے اپنے ماضی کے مخالفین سے ہاتھ ملانے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے جس کے باعث ضلع بھر میں پیپلز پارٹی اور مرزا گروپ کے درمیاں کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے ساتھ ہی الیکشن کے دوران کسی بھی تصادم کے واقعات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، دوسری جانب پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے یہ دعوے بھی کیئے جارہے ہیں کہ 19نومبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد ضلع بدین کی سیاست سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا نام و نشان مٹ جائے گا، پیپلزپارٹی اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب سے اپنے اپنے اُمیدواروں کو ٹکٹیں جاری کرنے کے بعد بدین کے شہریوں کو فیصلہ کرنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بدین کے بیشتر وارڈ میں سے ایک ہی برادری کے دو اُمیدوارمقابلہ کررہے ہیں جن میں سے ایک مرزا اور ایک پیپلز پارٹی کا امیدوار ہے ، بدین ضلع میں ، میمن، ملاح، سومرا، چانڈیہ،خواجہ اور کچھ دیگر برادریاں اکثریت میں ہیں اور ان ہی برادریوں کے اندر سے دونوں گروپس کی جانب سے اپنے اُمیدوار میدان میں اُتارے گئے ہیں اگر کسی برادری کی مرزا گروپ یا پیپلز پارٹی سے ہمدردی نا بھی ہو تووہ اپنی برادری سے کھڑے ہونے والے امیدوار کے باعث مجبور ہے اور جب ایک ہی برادری سے دو یا تین اُمیدوار میدان میں ہوں تو فیصلہ کرنا اوربھی مشکل ہوجائے گا، شہر بھر سے مختلف اُمیدوار طارق خلیفہ میمن، ڈاکٹر عزیز میمن، شاہد خان آفریدی، سحر جعفری، ریاض میمن، علی اکبر میمن، گلزار احمد میمن، کاشف قمبرانی، محمد رمضان ملاح، ایڈوکیٹ عیسیٰ ملاح، لونگ خاصخیلی، رفیق ملاح ، کرمی قاضی ، عابدہ جمالی،ایڈوکیٹ صلاح الدین میمن، نور احمد چانگ ، نیک محمد بروہی ، عبدالستار چانگ، نور محمد ملاح اور دیگر کی جانب سے اپنے اپنے علاقوں میں الیکشن کیمپ قائم کردیئے گئے ہیں جہاں پر آنے جانے والے لوگوں کی وجہ سے رونق لگی رہتی ہے انہیں اُمیدواروں کی جانب سے اپنے اپنے علاقوں میں جاکر اپنے ووٹر کو قائل کرنے کی کوششیں اور ووٹ انہیں کو دینے کی اپیلوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے، جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان امیدواروں کو دیئے جائے والے نشانات بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جن میں سے کسی کو مرغا ملا ہے تو کسی کو بوتل، کسی کو ٹوتھ برش ملا ہے تو کسی کو ڈھول، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر اُمیدوار اپنا نشان اپنے ساتھ اپنے ہاتھ میں لیکر الیکشن کی مہم چلا رہا ہے اور جب وہ نشان لیکر اپنے ووٹر کے پاس جاتے ہیں تو پہلے تو ووٹرز اپنی ہنسی نہیں روک پاتے اور جب ہنسی رکتی ہے تو پھر وہ انہیں اُمیدواروں کو سچے جھوٹے دلاسے دیکر روانہ کردیتے ہیں،
بدین کے شہریوں میں سے اکثر کا یہ کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن صرف اور صرف عدالتوں کے حکم پر عمل کرانے کے لیے کرائے جارہے ہیں جبکہ الیکشن مکمل ہونے کے بعد یہ نظام بھی انہیںپہلے سے منتخب نمائندوں کے زیر اثر رہے گا جن کے باعث یہاں کی عوام بگھت رہی ہے اور اگر یہی نظام چلتا رہا تو پھر الیکشن پر لاکھوں اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Badin Election

Badin Election