بدین : نرسنگ اسکول اور ھاسٹل میں پڑھنے والی طلباء ذہنی اذیت کا شکار

Badin Nursing School

Badin Nursing School

بدین (عمران عباس) سول اسپتال بدین کے زیر انتظام نرسنگ اسکول اور ھاسٹل میں پڑھنے والی طلباءذہنی اذیت کا شکار، چھ ماہ کے بعد ملنے والے وظیفے میں سے دو یا تین ماہ کے وظیفے کی کٹوتی کرلی جاتی ہے، اسکول بنیادی سہولتوں سے محروم، وظیفہ جاری کرنے والا رٹائرڈ ہیڈ کلارک اپنی مرضی کے مطابق وظیفہ دینے لگا۔

وقت پر وظیفہ،پینے کا صاف پانی، ھاسٹل پر ملنے والا اچھا کھانا، پڑھانے والے اساتذہ اور دیگر سہولیات نا ملنے کے باعث نرسنگ طلباءسخت پریشان، نرسنگ ھاسٹل اور اسکول کی طلباءکا بدین پریس کلب کے صحافیوں کو خط، میڈیا سے مدد کی اپیل۔بدین سول اسپتال کے زیر انتظام چلنے والے نرسنگ اسکول میں پڑھنے اور ھاسٹل میں رہائش پزید طلباءسخت پریشانی میں مبتلا ہوچکی ہیں ، بدین پریس کلب کو ملنے والے ایک خط جس میں طلباءکی جانب سے اپنا نام ظاہر نا کرنے کی گذارش کی گئی ہے اس میں ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھانے کے لیئے گذارشات کی گئیں ہیں، پڑھنے والی طلباءکے مطابق ان کے وظیفے کی رقم 6860روپے ہے لیکن ان کو یہ وظیفہ ہر ماہ نہیں دیا جاتا۔

تقریباََ ہر پانچ یا چھ ماہ کے بعد انہیں دو سے تین ماہ کے وظیفے کی کٹوتی کرکے بقایا رقم دی جاتی ہے اس وظیفے کے حساب سے ایک دن کا وظیفہ 228روپیہ ہوتا ہے اگر کوئی لڑکی کسی وجہ سے غیر حاضر رہتی ہے تو اس کا ایک دن کا وظیفہ 228کے بجائے 300روپے کاٹا جاتا ہے، اس سال بھی 2015میں اپریل اور مئی کی کٹوتی کرکے باقی چار ماہ کی رقم دی گئی ہے اور یہ رقم ان کو سول اسپتال میں خالی پڑی اسامی پر دو سال قبل رٹائرڈ ہونے والا کلرک (ن) دیتا ہے جسے اسپتال والوں کی انتظامیہ نے اس سیٹ پر بٹھایا ہوا ہے ، اسپتال ذرائع کے مطابق ان کو بٹھانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اسی سیٹ پر رٹائرڈ ہوا ہے جسے ہر معاملے کی خبر ہے کہ اس ادارے میں کرپشن کہاں سے کی جاتی ہے اور کہاں پر اسپتال کی بجٹ کو خوردبرد کیاجاتاہے،وہ کلرک اپنی مرضی کے مطابق جس طلباءکو وظیفہ دے یا نا دے ، کٹوتی کرنے والے وظیفے کا کوئی رکارڈ نہیں ہوتا اور ناہی ان طلباءکو کوئی اختیار ہے کہ وہ اس کے بارے میں ان سے پوچھ سکیں یا اس پر کوئی آواز اٹھائیں، اگر کوئی طلباءاحتجاج یا آواز اٹھاتی ہے تو اس کی آواز کو دبادیا جاتا ہے۔

یا پھر ان سے دشمنی کرکے اسے ھاسٹل سے کسی وجوہات پر نکال دیا جاتا ہے،میڈیا کی جانب سے جب ان خط لکھنے والی لڑکیوں سے رابط کیا گیا تو انہوں نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس اسکول میں تقریباََ 250کے قریب طلباءہیں ان میں سے اکثر لڑکیاں غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کے مطابق ان کے پیشے کو یہ زمانہ اچھی نظر وںسے نہیں دیکھتا پھر بھی ہم یہاں پر تعلیم حاصل اس لیئے کرتے ہیں کہ ہمارے اس ہنر سے اس ملک کی عوام کا فائدہ ہ اورملنے والے اس وظیفے کی رقم سے کم سے کم ہم اپنا گذرا تو کرلینگے اور اپنے غریب رشتیداروں پر بوجھ نہیں بنے گے لیکن ہر ماہ جاری نا ہونے والا وظیفہ ہماری مشکلات میں اور بھی اضافہ کرتا ہے جس کے لیئے ہم لڑکیاں ذہنی اذیت کا شکار ہیں ، انہوں نے مزید بتایا کہ ھاسٹل میں مہیا کیا جانے والا کھانا غیر معیا ری ہوتاہے جس کے باعث اکثر لڑکیاں بیمار رہتی ہیں، جبکہ ھاسٹل اور اسکول میں ایک ہی فلٹر لگا ہوا ہے جسے ہم پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں اگر کسی وجہ سے وہ خراب ہوجاتا ہے تو ہمیں کوئی بناکر بھی نہیں دیتا جس کے باعث ہمیں واٹر سپلائی کا گندا اور بدبودار پانی پینا پڑتا ہے ، انہوں نے بتایا کہ اس ہاسٹل میں ایک لیڈی ہیڈ اور ایک مرد انچارج ہیں جو ہمیں پڑھانے والے اساتذہ سے لین دین کرکے ان کو چھٹیاں دے دیتے ہیں اور ان کے نا آنے اور پڑھائی نا ہونے کے باعث ہم میں سے اکثر لڑکیاں فیل ہوجائی ہیں، یا پھر ان کو سپلی دینی پڑتی ہے۔

اس ساری صورتحال میں ہم سب لڑکیاں ذہنی اذیت کا شکار ہوچکی ہیں ہمارا کہیں پر زور نہیں چلتا کہ ہم کیا کریں بل آخر مجبور ہوکر ہم نے میڈیا سے رابطہ کیا کہ اس معاملے پر میڈیا ہمارا ساتھ دے تو ہم سڑکوں پر بھی آجائیں گے، اکثر طلباءکو یہ بھی شکایت تھی کہ میڈیا والے ہماری انتظامیہ سے ملی ہوئی ہے جو ہماری آواز اٹھانے میں ہماری مدد نہیں کرتی جس کے باعث ہم میں سے کوئی ظاہر نہیں ہوتا، انہوں نے اُمید کی کہ ان کی آواز کو اوپر تک پہنچایا جائے تاکہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ ہو سکے۔