6مئی 1831 کا بالا کوٹ کا عظیم معرکہ

Battle of Balakot

Battle of Balakot

تحریر : علی عمران شاہین
یہ بالا کوٹ ہے، ہزارہ ڈویژن کے ضلع مانسہرہ کا تحصیلی شہر۔ بالا کوٹ کے نام کی شہرت تو لگ بھگ دس سال پہلے اس زلزلہ کے بعد بام عروج پر پہنچی تھی جس میں یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا لیکن… اس شہر کی اصل شہرت معرکہ بالا کوٹ اور اس کے شہیدوں کی یادوں کو زلزلہ بھی نہ مٹا سکا،وہ سب تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہے۔ 6مئی 1831ء جمعة المبارک کا دن اسلامیان ہند کی تاریخ میں ایک عجب حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ دن تھا جب برصغیر کے کونے کونے سے آئے غریب الوطن لیکن رب تعالیٰ کی محبت میں ڈوبے اور تقویٰ و للہیت سے لبریز چند سو جانثار اپنے دور کے حکمران سکھوں کی 20ہزار کی انتہائی طاقتور فوج کا اپنے رہبر سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کے ہمراہ مقابلے کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے تھے۔

یہ 1799ء کی بات ہے۔ شاہ افغانستان زمان شاہ ابدالی ٹیپو سلطان کی مدد کے لئے جاتے ہوئے لاہور پہنچا تھا کہ اس کے سوتیلے بھائی محمود شاہ نے کابل میں بغاوت کر دی۔ چنانچہ زمان شاہ کو واپس کابل جانا پڑا۔ واپسی کے سفر میںاس کی توپیں دریائے چناب میں گر پڑیں تو وہ سکھ سردار مہان سنگھ نے دریا سے نکلوا دیں۔ اس پر زمان شاہ نے مہان سنگھ کے بیٹے رنجیت سنگھ کو لاہور کا گورنر بنا دیا۔ 1801ء میں رنجیت سنگھ نے سازش سے پنجاب میںالگ سکھ ریاست قائم کر لی رنجیت سنگھ نے چونکہ حکومت مسلمانوں سے ہتھیائی تھی ،سو اس نے اپنے مقابل قوت کوختم کرنے کے لئے جہاں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے، وہیں اسلامی شعائر مٹانے کیلئے پوری قوت صرف کی۔ رنجیت سنگھ کا مرکز لاہور تھا، جہاں مسلمانوں کی تاریخی باد شاہی مسجد کو اصطبل بنا دیا گیا تھا تو وہیں اس کے دروازے کے ساتھ دیوہیکل گوردوارہ بنا دیا گیا تھا جو آج بھی قائم ہے۔ سکھوں کے انہی مظالم کے خلاف 1803ء میں اس تحریک نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اس وقت شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبدالعزیز نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر اعلان جہاد کیا تھا۔

اس تحریک کے لوگوں نے انگریزوں کی آمد اور ان کے بڑھتے قدموں کے مقابلے کے ساتھ ساتھ تھوڑے ہی عرصہ میں سکھوں کو کئی معرکوں اور لڑائیوں میں شکست دے کر ایک مثالی مسلم حکومت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ یہ مسلمانوں کی تاریخی اور روایتی بدقسمتی رہی ہے کہ انہیں ہر دور میں آستین کے سانپوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے جس سے انہیںشکستوں کا سامنا ہوا۔ یہی المیہ خلافت بنو امیہ کے بعد خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ سے لے کر ہندوستان میں انگریزوں اور سکھوں کے خلاف مسلمانوں کی شکست کی بڑی وجہ بنا۔ جب سیدین کی تحریک کی صوبہ سرحد کے خوانین نے کامیابی دیکھی تو ساتھ ہو لئے لیکن جب دشمن کو بظاہر طاقتور دیکھا تو غداری پر اتر آئے ،حتیٰ کہ سید احمد بریلوی کو 1829ء میںزہر دے دیا گیا تھا لیکن وہ اس سے بھی جانبر ہو گئے تھے۔

Kashmir

Kashmir

انہی حالات کے پیش نظر حضرت شاہ صاحب ساتھیوں کے ہمراہ پشاور چھوڑ کرخطہ کشمیر کی جانب عازم سفر ہوئے۔ انہیں یقین تھا کہ کشمیر کے مسلمانوں میں جذبہ ایمانی اور الفت اسلامی اس قدر رچی بسی ہے کہ انہیں یہیں سے اپنے مشن کو آگے بڑھانے کا راستہ ملے گا۔ کشمیر کے سفر میں ان کی تحریک نے جہاں بھی قدم رکھے، اس کے اثرات آج بھی زمانہ چمکتے سورج کی طرح دیکھتا ہے۔ ہزارہ کا چپہ چپہ اس کا گواہ ہے۔ منزلوں پرمنزلیں مارتا ان کا یہ قافلہ ابھی بالا کوٹ پہنچا ہی تھا کہ انہیں سکھوں کی طاقتور فوج آ کر گھیر لیاتووہ ایک بار پھر اپنوں کی غداری کا شکار ہوئے۔بالاکوٹ کے آسمان پر 6مئی 1831ء کا سورج غروب ہوا تو دریائے کنہار کے چار اطراف اللہ کے دین کے جانثار اور برصغیر کے اطراف و اکناف سے آئے غریب الدیارشہادت کے بعد تدفین کے منتظر تھے۔۔ سکھوں کے خیموں میں فتح کے نقارے یوں بج رہے تھے کہ انہوں نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو چت کر کے جیسے ہمیشہ کی حکومت نام کر لی ہے۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کنہار میں بہنے والا خون ان کی تاریخ کی پہلی سکھاشاہی کو محض چند ہی برس بعد ایسے بہا کر لے جائے گا کہ دوبارہ اس کا قیام بھی کبھی ممکن نظر نہیں آئے گا۔

پھر دنیا نے دیکھا کہ پنجاب کی سکھا شاہی 1849ء میں اپنے ہمیشہ کے اختتام کو پہنچ گئی لیکن سید بادشاہ کا قافلہ دعوت و جہادمحوسفر رہا۔ بالا کوٹ کے میدان کارزار کے غازی سارے ہندوستان میں پھیل کر انگریزوں کے خلاف ہر جگہ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے لاتعداد کو کالا پانی قید کی سزائیں دی گئیں۔ بے شمار سولیوں پر پر لٹکائے گئے۔ انگریز نے بے شمار کی املاک ضبط کر لیں لیکن قافلہ حقہ کے کسی راہی کا سر ان سے نہ جھکایا جا سکا۔ اس سب کا اعتراف نامور انگریز مورخ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی کتاب ”ہمارے ہندوستانی مسلمان” میں جگہ جگہ کیا ہے۔ڈاکٹر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر لکھتا ہے ”جب ہم نے پنجاب کا الحاق کیا تو تعصب کی اس رو کا رخ جو پہلے سکھوں کی طرف تھا، ان کے جانشینوں (یعنی انگریزوں) کی طرف پھر گیا۔سکھوں کی سرحد پر جس بدامنی سے ہم نے چشم پوشی یابے پروائی کی تھی، وہ ایک تکلیف دہ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچی تھی۔1821ء میں امام صاحب نے اپنے خلفاء منتخب کرتے وقت ایسے آدمیوں کا انتخاب کیا جو بے پناہ جوش وخروش کے مالک اور بہت ہی مستقل مزاج تھے،ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس کس طرح متعدد بار جب یہ تحریک ناکام ہونے کے قریب تھی،

انہوں نے ہر بار جہاد کے جھنڈے کواز سر نو بلند کردیا۔ پٹنہ کے خلفاء جو انتھک واعظ’ خود اپنے آپ سے بے پروا بے داغ زندگی بسر کرنے والے’ انگریز کافروں کی حکومت کو تباہ کرنے میں ہمہ تن مصروف اور روپیہ اور رنگروٹ جمع کرنے کے لئے ایک مستقل نظام قائم کرنے میں نہایت چالاک تھے۔اب میں نے اپنی سرحد پر اس باغی کیمپ کی تمام تاریخ 1831ء سے جبکہ اس کی ابتداء ہوئی اور انہوں نے ہم کو جنگ میں دھکیل دیا، بیان کردی ہے۔ وہ تمام پرانی مصیبتیں جو انہوں نے سکھ حکومت کے وقت سرحد پر نازل کی تھیں، وہ تمام ایک تلخ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچیں۔اس نے تمام سرحد میں تعصبی جذبات برقرار رکھنے کے علاوہ تین مرتبہ قبائل کو یکجا کردیا، جس کی وجہ سے برطانوی ہند کو ہربار بہت ہی مہنگی لڑائیاں لڑنی پڑیں۔

Pakistan

Pakistan

یکے بعد دیگرے ہر گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ یہ ہمارے لئے ایک مستقل خطرہ ہے، لیکن اس کے باوجود ان کو تباہ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ہم نہیں جانتے کہ کس وقت ہم قبائل کی خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں آجائیں گے جو وسط ایشیا میں ہر وقت جاری رہتی ہیں، مگر اس وقت یہ عین ممکن ہے کہ اس سال کے ختم ہونے سے پہلے ایک اور افغان جنگ لڑنی پڑے۔ یہ جلد یا بدیر ہوکر رہے گی تو ہماری سرحد پر غدار آبادی ہمارے دشمنوں کو ہزار ہا آدمی مہیا کر سکے گی ۔ہمیں ان غداروں کی اپنی ذات سے کوئی ڈر نہیں، ڈر ہے تو ان شورش پسند عوام سے ،جن کو یہ مجاہدین ہمارے خلاف جہاد کے لئے باربار اکٹھا کرتے ہیں۔ ”سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی یہ تحریک کیسی انوکھی و یکتا تحریک تھی جس نے خطے میں ہزاروں کلومیٹر کا سفر پیدل طے کیا۔

ہر جگہ ہر طرف انگریز اور سکھوں جیسے بدترین اور انتہائی طاقتور دشمن انہیں دبوچنے بیٹھے ہوئے تھے تو مقابلے میںیہ ایسے درویش مسکین لوگوں کی تحریک تھی جوگھر گھر کے ایک مٹھی آٹے کے چندے پر چلتی تھی اور جس کے راہی اکثر فاقوں پر ہی رہتے تھے۔ اس کے باوجود اپنے زمانے کی سپر پاور پریلغاریں کرتی تھی۔ اس تحریک نے اسی فاقہ مستی کے عالم میں ہر ضلع بلکہ گائوں تک نظم قائم کیا تھا۔سکھوں اور پھر انگریز کے بدترین ظلم کا سامنے کرتے یہ لوگ 1947ء تک چٹان کی طرح جمے رہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ اپنے اسی دور میں اس تحریک کے لوگوں نے کئی مرتبہ ایک لاکھ تک مجاہدین حق ناقابل شکست افغانیوں کو انگریز کے خلاف لڑنے کیلئے پیش کر دیئے تھے ۔تاریخ میں اگر یہ لکھا جاتا ہے کہ افغانیوں نے انگریزوں کو 2بار انتہائی برے طریقے سے شکست دے کر اپنے دیس سے مار بھگایا تھا تو اس میں سید بادشاہ کے قافلہ کا کردار کسی طور کم نہیں تھا۔ ڈیڑھ صدی کے سفر میں اس تحریک نے جتنی کامیابیاں سمیٹیں ،وہ اسلامیان ہند کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے لیکن افسوس کہ یہ باب بند کر کے ملک و ملت کو عظیم ماضی سے ہی ناآشنا کر دیا گیا ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین