بانو قدسیہ علم و ادب کا روشن ستارہ ڈوب گیا

Bano Qudsia

Bano Qudsia

تحریر : رشید احمد نعیم، پتوکی
جس نے دنیا میں آنکھ کھولی ہے اسے ایک دن سفر آخرت اختیار کرنا ہی ہے۔یہی قانون ِ قدرت ہے کہ مخلوق کو فنا ہونا ہے۔ بقاء صرف خالق کے لیے ہے۔مخلوق و خالق کے درمیان یہ فرق ازل سے لے کر ابد تک قائم رہے گا۔اللہ تعالیٰ کی ذات ِ اقدس کا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ” ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ” جو اس دنیا میں آیا ہے ، اسے جانا بھی ہے کیونکہ یہ دنیا فانی ہے۔موت نے ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینا ہے ۔ نہ یہ کسی کا پھول سا بچپن دیکھتی ہے اور نہ ہی کسی کی کڑیل جوانی کا لحاظ کرتی ہے ۔نہ کسی کے بڑھاپے پر ترس کھاتی ہے اور نہ کسی نومعلود کی نئی نئی آمد کا خیال کرتی ہے۔ موت ایک ا ٹل حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔موت وہ زندہ حقیقت ہے جو ہمارے ہر طرف موجود ہے۔

وہ ہما رے دائیں بھی ہے اور با ئیں بھی ،وہ اوپر بھی ہے ،نیچے بھی ،وہ تو ہر جگہ مو جو د ہے ، صحر ا کی ویر انیو ں میں اور شہر کی محفلو ں میں بھی ،سمند ر کی تلا طم خیز مو جوں میں بھی اور خشکی کے سنا ٹو ں میں بھی ،مو ت تو ہر شخص کا تعا قب کر ر ہی ہے ،ذکی اور عا لم کا بھی ،غبی اور جا ہل کا بھی ،صا حب ثر وت کا بھی ،مفلس اور قلا ش کا بھی مو حد اور مسلم کا بھی ، مشر ک اور کا فر کا بھی ، وہ نہ فر عو ن جیسے متکبر کو حھپو ڑ تی ہے ، نہ مو سی جیسے کلیم اللہ اور ایو ب جیسے صابر کو ،وہ نہ نمر و د جیسے سر کش کو معا ف کر تی ہے ، نہ ابر ا ہیم جیسے خلیل ا ﷲ اوراسماعیل جیسے ذبیح ا ﷲ کو ،اس کی نظر میں ارسطو اور افلا طو ن جیسے حکیم اور ابو جہل وابو لہب جیسے نا دان بر ابر ہیں۔یہی موت آج تعاقب کرتی کرتی دنیائے علم و ادب کے ایک انتہائی معتبر نام محترمہ بانو قدسیہ تک پہنچ گئی پھرایک ایسی دلدوز خبر آئی جو کڑکتی ہوئی آسمانی بجلی کی طرح کروڑوںاذہان کو جھلسا گئی۔بانو قدسیہ وہ قابل ِ احترام نام ہے جس کی وفات نے ہزاروں نہیں ،کروڑوں دلوں کو سوگوار کر دیا۔ ہے۔

معروف ادیبہ بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئیں ان کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے۔ بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے فیروز پور ہی میں حاصل کی۔ انھیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا بانو قدسیہ نے 1949 میں گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا۔ اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے۔ دونوں کی مشترکہ دلچسپی ادب پڑھنا اور لکھنا تھا۔ دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ کی شادی اشفاق احمد سے ہوئی۔ دونوں رائٹرز تھے اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔

Bano Qudsia

Bano Qudsia

انھوں نے ایک ادبی رسالے” داستان گو” کا اجراء کیاریڈیو اور ٹی وی پر بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نصف صدی سے زائد عرصے تک حرف و صورت کے اپنے رنگ دکھاتے رہے ۔ریڈیو پر انھوں نے 1965 تک لکھا، پھر ٹی وی نے انھیں بے حد مصروف کردیا ۔بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے۔ جن میں ‘دھوپ جلی، خانہ بدوش ‘کلو’ اور ‘پیا نام کا دیا جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ اس رائٹر جوڑے کے لکھے ہوئے ان گنت افسانوں، ڈراموں، ٹی وی سیریل اور سیریز کی مشترکہ کاوش سے ان کا گھر تعمیر ہوا۔ بانو قدسیہ نے افسانوں، ناولز، ٹی وی و ریڈیو ڈراموں سمیت نثر کی ہر صنف میں قسمت آزمائی کی۔ 1981 میں شائع ہونے والا ناول ”راجہ گدھ” بانو قدسیہ کی حقیقی شناخت بنا۔ بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے، راجہ گدھ کے علاوہ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توجہ کی طالب، قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں 2003 میں ”ستارہ ِامتیاز” اور 2010 میں ”ہلالِ امتیاز” سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انھوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے اور اب انھیں کمال فن ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے۔

بانو قدسیہ دنیا ئے ادب کا بہت بڑا اثاثہ تھیں۔ بانو قدسیہ عظیم ادیبہ و مصنفہ اور اردو کی مقبول و معروف ناول نگار اور افسانہ نگار تھیں۔ ادب کی دنیا میں بانو قدسیہ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بانو قدسیہ کا شمار ملک کی قد آور شخصیات میں ہوتا تھا، ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا اسے پر کرنا ناممکن ہے۔ بانو قدسیہ پاکستان کا اہم سرمایہ تھیں، ان کی خدمات آئندہ نسلوں تک یاد رکھیں جائیں گی۔ ان کی کل تصانیف کی تعداد دو درجن سے زیادہ ہے اور ان میں ناول، افسانے، مضامین اور سوانح شامل ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی لکھا۔ پاکستان ٹیلی ویڑن کے لیے لکھے ہوئے متعدد ڈراموں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ ممتاز مفتی بانو قدسیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”آپ بانو کو جانتے ہیں چونکہ وہ مصنفہ ہے ـ قدسیہ کو نہیں جانتے جو فرد ہے۔

میں قدسیہ کو جانتا ہوں بانو کو نہیں جانتاـ بانوقدسیہ ایک نہیں دوافراد ہیں جس طرح کسی کسی بادام میں دومغز موجود ہوتے ہیںـ اسی طرح بانوقدسیہ کی شخصیت کے دو پہلو ہیں الگ الگ ـ ایک بانودوسری قدسیہـمیں بانوقدسیہ سے واقف نہیں لہذا اس کی شخصیت قلم بند کرنے سے قاصر ہوںـ صرف یہی نہیں کہ واقف نہیں سچی بات ہے میں اس سے واقف ہونا ہی نہیں چاہتا میں ہی نہیں اس کے گھرمیں بھی کوئی اس سے واقف نہیں نہ اشفاق، نہ نوکی، نہ سیری، نہ کیسی کوئی بھی بانوسے واقف نہیں ہونا چاہتاـگھرمیں تین مظلوم رہتے ہیں ـ بانو، قدسی اوراشفاق احمد ـ بانو کو قدسی جینے نہیں دیتی، قدسی کو اشفاق جینے نہیں دیتا، اشفاق احمد کو خود اشفاق احمد جینے نہیں دیتاـ اشفاق احمد پٹھان ہے قدسیہ جاٹ ہے، بانوبے ذات ہےـ اشفاق براہمن ہے، قدسیہ شودہرہے، بانوہاری ہے شہد کی مکھی ہےـ قدسیہ پروانہ ہے، اشفاق بھڑہےـ بانوذہن ہے قدسی دل ہے، اشفاق ذہن ہےـبانوکی فکرمنزل ہے، قدسی کے لیے پتی بھگتی ہے، اشفاق کے لیے ذات منزل ہے قدسی کی شخصیت کا جزواعظم پتی بھگتی ہےـ

اگرآپ پتی بھگتی کا مفہوم سمجھنا چاہتے ہیں تو میرا مخلصانہ مشورہ ہے چند روز اشفاق احمد کے گھرمیں قیام کیجیےـاگراشفاق احمد قدسی کی موجودگی میں برسبیل تذکرہ آپ سے کہے کہ اس گھر میں تو سامان کے انبارلگے ہوئے ہیں میرا تو دم رُکنے لگا ہے تو اگلے دن گھر میں چٹائیاں بچھی ہوں گی اور پیڑھیاں دھری ہوں گیـ اگرکسی روز لاؤڈ تھنکنگ کرتے ہوئے اشفاق کہے بھئی چینی کھانوں کی کیابات ہے تو چند دنوں میں کھانے کی میز پرچینی کھانے یوں ہوں گے جیسے ہانگ کانگ کیکسی ریستوران کا میز ہوـایک دن اشفاق کھانا کھاتے ہوئے کہے کہ کھانے کا مزہ تو تب آتا تھا جب اماں مٹی کی” ہانڈی” میںپکاتی تھیںـ اگلے روز قدسی کے باورچی خانے میں مٹی کی” ہانڈی ”چولہے پردھری ہوگیـ پہلی مرتبہ میں نے بانو کو سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائینگ روم چلی گئیـپھر ڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کررہی تھی ـ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال،اندازِ بیان کی خصوصیات کی باتیں،ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اورجمالیات تھیـ میں حیرت سے سن رہا تھاـاللہ اندر توقدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کررہی ہےـ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگرمگر، چونکہ، چنانچہ کون ہے .تب مجھے پتہ چلا بانوکون ہے”بانو قدسیہ گلشن ِ علم و ادب کا ایک خوبصورت پھول تھا جس نے اپنی خوشبو سے ہر ایک کو معطر کیا۔
اللہ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے( آمین)

Rasheed Ahmad Naeem

Rasheed Ahmad Naeem

تحریر : رشید احمد نعیم، پتوکی