عظیم رہبر کی عظیم بیٹی بینظیر بھٹو

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

افلاطون کہتا ہے کہ دنیا عاقل کی موت پر اور جاہل کی زندگی پر ہمیشہ آنسو بہاتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ آج کا یہ دن اور یہ تاریخ قوم کبھی نہیں بھلا سکتی اس لئے کہ چھ سال قبل27 دسمبر 2007 کو آج ہی کے دن ملک دشمن عناصر نے عالم اسلام کی بطل جلیل اور پہلی مسلمان وزیر اعظم کا دوبار اعزاز عظیم حاصل کرنے والی نہ صرف دختر مشرق بلکہ مغرب کی بھی اس مقبول اور ہر دلعزیز خاتون محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا جو حقیقی معنوں میں جمہوریت کی علمبردار تھیںگو کہ وہ آج ہم میں نہیں مگر ان کی یوں اچانک شہادت کا کسی کو آج تک یقین نہیں آرہاہے کہ ظالموں نے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے شہید کر دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو ملک کے چاروں صوبوں کی زنجیر یعنی کہ وہ وفاق کی کلی علامت تھیں اور ان کی اس طرح ہونے والی شہادت سے جہاں پاکستان کو نقصان پہنچا ہے تو وہیں ملت اسلامیہ اورعالمی دنیا کو بھی ایک مدبراور انتہائی عظیم خاتون کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔

اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے ساتھ ہی وفاق پاکستان کے درخشاں باب کا بھی خاتمہ ہوگیاہے اور یہ وہ خلا ہے کہ جو کم ازکم برصغیر میں تو اب کبھی بھی فل نہ ہو سکے گا انہوں نے اپنی جان اپنے عظیم باپ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے اصولوں پر چلتے ہوئے وطن عزیز پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور اس کی بالادستی، غریبوں، محتاجوں اور ناداروں کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے دی ان کی مقبولیت کا اندازہ کسی پیمانے سے نہیں لگایا جاسکتاوہ اپنے وقاراور جرأت وہمت کی وجہ سے ہر اس شخص کے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گی جوجرأت اور وقارکا امین ہے اور آج بھی دنیامیں ایسے لوگوں کی تعدادبے شمار ہے کہ جو اپنی قوم اور وطن کی حفاظت کے لئے وقار اور جرأت کا مظاہر کرتے ہوئے اس راہ میں کوشاں ہیں اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس جذبے کے تحت اپنی جانوں کا نزرانہ بھی پیش کیا پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق (دومرتبہ) وزیراعظم کااعزاز حاصل کرنے والی خاتون محترمہ بینظیر بھٹو 21 جون 1952 کو پیدا ہوئیں آپ کے والد محترم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پہلے جیتگز نرسری اسکول اور بعدازاں آپ کو کانونٹ اسکول کراچی میں داخل کرایایہاں آپ صرف دو سال ہی تعلیم حاصل کرسکیں۔

اس کے بعد آپ راولپنڈی منتقل ہو گئیں یہاں آپ کا پریز ینٹیشن اسکول میں داخلہ ہوا بعد ازاں آپ کا مری میں کانونٹ اسکول میں داخلہ کرایا گیا آپ نے 15 سال کی عمر میںاولیول کا امتحان نمایاں پوزیشن سے پاس کیااورپھر اے لیول مکمل کرنے کے بعد آپ کراچی آگئیں یہاں آپ کا داخلہ کراچی گرامر اسکول میں کرا دیا گیا اس طرح آپ پاکستان میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کے خاطر امریکا چلی گئیں آپ 5 سال (1969سے1973) تک ریڈیکلف کالج اور ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہیں اس ہی دوران آپ نے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور یہاں سے مزید تعلیم کی غرض سے برطانیہ چلی گئیں جہاں آپ نے 5سال (1973سے1977) تک اپنے قیام کے دوران لیڈی مرگریٹ ہال آکسفورڈ میں فلسفہ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے انہیں پڑھا ا وراس کے علاوہ آپ نے آکسفورڈ سے بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی کے مضامین میں بھی اپنی خاصی دلچسپی کی وجہ سے ان کے کورس بھی کئے۔

آپ کو 1976 میں آکسفورڈیونین کا صدر بھی بننے کااعزاز حاحل ہے(یہ بھی ریکارڈپر موجود ہے کہ آپ وہ پہلی ایشیائی خاتون ہیں جنہیں ڈبیٹگ سوسائٹی کا سربراہ بننے کا موقع ملا)آپ کی شادی 18 دسمبر 1987 کو آج ملک کے موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری سے کراچی میں انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ انجام پائی جن سے آپ کے تین بچے بلاول بھٹو زرداری ،بختاور اورآصفہ ہوئے اس حقیقت سے نہ صرف اہل پاکستان ہی اچھی طرح سے واقف ہیںبلکہ ساری دنیا بھی یہ خوب جانتی ہے کہ بھٹوخاندان لگ بھگ تین سے زائددہائیوں سے مسلسل جن مسائل و مصائب اور غموںسے دوچارہوا ہے کوئی اور اگر ہوتا تو وہ کب کا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیتااور گوشہ نشینی اور گمنامی کی زندگی بسرکرتا مگر سلام ہے اس عظیم خاندان کے سپوتوں کو کہ جنہوںنے اس ملک میں اصولوں کی سیاست اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے خاطر آمریت کے دیوتاؤں کو ڈھیر کرنے کے لئے ہر دور میں اپنے خون کا ایک ایک قطرہ تک کو پانی کی طرح بہا دیا گو کہ اس خاندان کو اس سرزمین پاک سے انتی خوشیاںنہیں نصیب ہوئیں کہ جتنے غم ان کے دامن میں آئے ہیں۔

Zulfiqar Ali Bhutto

Zulfiqar Ali Bhutto

اس خاندان کا صرف انتا ہی تو قصور ہے کہ اس نے ہمیشہ ملک میں جمہوریت کی آواز کوآمروں کے منافقانہ قول وفعل کے سامنے بلندکیا اور ان غیر جمہوری قوتوں کے خلاف پرچم حق کو کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اس دور کے ایک آمر جنرل ضیاء الحق نے صرف جمہوریت کی ہی پاداش میں پھانسی دی اور اس کے بعد اس ہی آمر جنرل کے ہی دور حکومت (1980) میں فرانس میں ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے اور محترمہ بینظیر بھٹوکے بھائی شاہ نواز بھٹو کو بھی زہردے کر ہلاک کر دیا گیا ان کے بعد اس محب وطن خاندان کو ایک اور بڑے صدمے سے 20 ستمبر 1996 کو دوچار ہونا پڑا کہ جب بھٹو شہید کے ایک اور بیٹے اور بینظیر بھٹو کے دوسرے بھائی مرتضی بھٹو کو بھی ہلاک کر دیا گیا محترمہ بینظیر بھٹو کا سفر سیاست کا آغاز بھی بڑے ہی دکھ ودر کے ساتھ ہوا گو کہ انہوں نے سیاست کے تمام اسرارورموز اپنے والد شہید محترم ذوالفقار علی بھٹو سے تو سیکھ رکھے تھے اور ان پر عمل کرنے کا وقت تب شروع ہواکہ جب انہوں اپنے پورے مصمم ارادے کے بعد اس میدان سیاست میں قدم رکھنے کا سوچا کہ اس سے ان کے عظیم والد ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو تسکیں ہوگی اور جو کام وہ ادھورا چھوڑ گئے تھے وہ یہ پورا کریں گئیں۔

یوں آمر جنرل ضیاء الحق کی المناک ہلاکت کے بعد ملک میں ہو نے والے 1988 کے انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹو کی ولوالہ انگیز قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر نئے جذبے اور نئی روح کے ساتھ بیدرار ہوئی اور ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھر پور طریقے سے حصہ لیا اور بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہو ئی اس طرح 1988میں محترمہ بینظیر بھٹو نہ صرف ملک پہلی بلکہ امت مسلمہ کی بھی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں ِ

(اس وقت آپ کی عمر 35 سال تھی)اسی طرح اکتوبر 1993 کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پھر کامیاب ہوئی تو محترمہ بینظیر بھٹو کو ملک کا دوبارہ وزیراعظم منتخب کرلیا گیا 1998 کو نواز شریف کے دوراقتدار میں آپ کو جلاوطنی اختیا ر کرنی پڑی اس دوران آپ نے وہاں سے ہی پارٹی کے امورانجام دئیے 12 اکتوبر 1999 کو جب جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف کی حکومت پر شب خون مارکرملک میں قائم لولی لنگڑی جمہوری حکومت کے ہاتھوں سے بیساکھی گھسیٹ لی تو اس آمر جنرل نے جیسی کرنی ویسی بھرنی کے تحت نوازشریف کو بھی بڑی ہی بیدردی سے ان کے اہل خانہ سیمت راتوں رات جہاز میں بھر کر جلاوطن کردیا کیوں کہ نوازشریف نے محترمہ کو اسی طرح جلاوطن کیا تھااور وہ اب خودبھی جلاوطن ہوگئے تھے بہرحال!اس سے بھی کچھ نہ ہو ا محترمہ ملک سے باہر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری مسلسل اس دوران بھی پابندسلاسل ہی رہے پہلے تو صرف محترمہ بینظیر بھٹو ہی ملک سے باہر تھیں اور اب تو نوازشریف بھی ملک ہی سے نہیں بلکہ سیاست سے بھی آوٹ ہو چکے تھے۔

اس عرصے میں مشرف پر عالمی دباؤ برھا تو اس آمر جنرل نے محترمہ بینظیر بھٹو کی جانب مصالحت کا خاموشی سے ہاتھ بڑھایا اس کے پیچھے کیا راز پوشیدہ تھا اس کا پردہ تواس وقت اٹھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو اپنی طویل جلاوطنی کے بعد 18اکتوبر2007کو جب کراچی واپس آئیں تو ان کے تاریخی استقبالیہ جلوس میں بم دھماکہ ہوا اس قاتلانہ حملے میں محترمہ بینظیر بھٹو خوش قسمتی سے محفوظ رہیں ہاں البتہ اس ہولناک واقع میں 150 سے زائد افراد شہید اور 500 کے لگ بھگ شدید و معمولی زخمی ہوئے آپ محترمہ بینظیر بھٹو کو ان تمام خطرات کا پہلے سے ہی علم تھا مگر وہ ایک نڈراور بہادر خاتون تھیں اس کے باوجود بھی آپ نے ذرابھی خوف محسوس نہ کیا اور اپنی انتخابی مہم کو جاری رکھا اور آپ بلاخوف وخطرملک کے کونے کونے اور چپے چپے میں اپنے انتخابی جلسے اورجلوسوںکی قیادت کرتی رہیں مگرگزشتہ برس 27 دسمبر 2007 بروزجمعرات کو جب اس عوام دوست لیڈر کی عمر 54سال تھی توایسے ہی ایک انتخابی جلسے کے دوران راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں محترمہ بینظیر بھٹو پر دوسرااور آخری قاتلانہ حملہ اس وقت ہواکہ جب آپ ولوالہ اور فکر انگیز خطاب کے بعد جانے کے لئے اپنی گاڑی میں سوار ہوکر روانہ ہورہیںتھیںکہ اس دوران راولپنڈی کے اس تاریخی باغ نے ایک بارپھر دنیا کی اس عظیم خاتون کے خون سے اپنی زمین کورنگ لیااس سے قبل ا س باغ میںملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی شہید کئے گئے تھے۔

اس بار بھی ملک کی پہلی اور دیناکی انتہائی قابل اور مدبرخاتون کوکسی ماہر اور بہترین نشانہ باز نے ان پر فائرنگ کر کے انہیں شہیدکر دیا محترمہ شام 6 بجکر 16 منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں اپنے چاہنے والوں کوافسردہ کرگئیں اور اس کے ساتھ ہی ان کے قاتل نے خود کو بھی دھماکے سے اڑالیا اور اس کے بعدتو پورالیاقت باغ کا علاقہ قیامت صغری کا منظر پیش کرنے لگا اور انسانی اعضاء جائے وقوعہ سے 250 فٹ دور تک ملے ہر طرف نعشیں بکھری پڑیں تھیں چیخ وپکار کا ایک عالم تھا اس واقع میں بھی متعدت افراد شہید اور کئی شدید زخمی بھی ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو حقیقت میں ایک عملیت پسند خاتون تھیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے جو کہا اور جس کام کو کرنے کا وعدہ کیا اس کو عملی طور پر بھی کر کے دیکھایا محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی اس اچانک ہوئے والی شہادت کے بعد ملک بھر میں جو کچھ بھی ہوا (یعنی جو انارگی پھیلی وہ ایک فطری اور جژباتی امرتھا) اگر اس وقت عوام کو روکا جاتا تو حالات ممکن تھے کہ اس سے کہیں مختلف اور پیچیدہ ہوجاتے بہرحال! اس وقت وہ کچھ نہیں ہونا تھاجو ہوا تھا اورجس نے بھی قومی اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا اس نے اپنی اس عظیم رہنماء کی روح کو ضرور مزید ٹھیس پہنچائی ہوگی کہ ان سمیت ان کے خاندان کے ہر فرد نے اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے خاطر اپنی جانوں کانزرانہ پیش کیا اور اس ملک اور اس کی عوام کی آبیاری اپنے مقدس خون سے کی ملکی ا ور نجی املاک کو انہوں نے کبھی بھی نقصان پہنچانے کادرس نہیں دیا صرف یہ نہیں بلکہ کوئی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت کا سربراہ ملکی اور نجی سرکاری اور غیرسرکار ی املاک کو نقصان پہنچانے اور جلانے کو کبھی نہیں کہتا وہ تو ادھر ادھر کے چند شرپسند عناصر ایسے موقعوں کا فائدہ اٹھاجاتے ہیںاور وہ انتا کچھ کر جاتے ہیں کہ قوموں کو اس کا خمیازہ سالوں بھگتنا پڑتا ہے۔

Bilawal Bhutto Zardari

Bilawal Bhutto Zardari

اگرچہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی نئی قیادت کے لئے بہت سے نام سامنے آرہے تھے مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی تجہیزوتکفین کے مراحل سمیت رسم قل کے بعدان کی واضح وصیت کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے (تین گھنٹے بند کمرہ اجلاس کے بعد)اتوار 30 دسمبر 2007 کو پارٹی کی نئی قیادت کے حوالے سے جو فیصلہ کیا اس سے محترمہ بینظیر بھٹوکی جدائی کے بعد غم سے نڈھال اور سوگوار کارکنوں میں امید افزا حوصلہ پیدا ہواکیو ں کہ سینٹرل ایگزیکٹیو کونسل نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے 21سالہ صاحبزادے بلاول بھٹوزرداری جو 21 دسمبر 1988 میں کراچی میں پیداہوئے اور وہ ہوبہو اپنی ماں کی تصویر ہیں انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کا نیا چیئر مین بنا دیا گیااوراس موقع پر متفقہ طور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پارٹی کے نئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کیوں کہ ابھی زیر تعلیم ہیں اس لئے ان کی تعلیم مکمل ہونے تک پارٹی کی قیادت شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے شوہر اور بلاول بھٹوزرداری کے والد محترم آصف علی زرداری کو شریک چیئر مین کی حیثیت سے پارٹی کی یہ اہم ذمہ داری سونپی جارہی ہے پارٹی کے نئے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری ان دنوں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے طالب علم ہیں اور ان سطور کو چھپنے والے دن تک یعنی 27 دسمبر 2013 تک وہ 26 سال اور 8 دن کے ہو چکے ہوں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ 18 فروری کے ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی بھرپور عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے ایک مثالی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

جبکہ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا خام خیال یہ تھا کہ 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کامیابی کے امکانات ایک مرتبہ پھر روشن ہوجائیں گے اوراِس میں کوئی شک نہیں کہ 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کامیابی کے پیچھے سب سے اہم اور نمایاں عنصر جو غالب رہا وہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کا تھااور آج پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک کو ایک سیکولر ازم کی نئی سوچ اور نئے جمہوری راستوں پر گامژن کر دیا ہے اس کا سارا سہرا صدرمملکت آصف علی زرداری کے سر توضرورجاتا ہے جنہوںنے اپنی مدبرانہ سوچ،فہم وفراست اور افہام و تفہیم سے تمام سیاسی اور مذہبی جماعت کو اعتماد میں لیکر ملک اور قوم کے بہتر مفاداور استحکام کے لئے کچھ ایسے فیصلے توضرور کئے ہیں کہ قوم کا حکومت پر تھوڑابہت اعتماد بحال ہو گیا تھامگراِس کے باوجودبھی زرداری حکومت نے بے شمارخامیاں موجودتھیں،جس کا نتیجہ مئی 2013کے انتخابات میں پی پی پی کی ناکامی کی صورت میں یوں سامنے آیا پاکستان پیپلزپارٹی محدودہوکر صرف اپنے ایک صوبے سندھ تک رہ گئی ہے، ایسے میں اپنااحتساب پی پی پی والوں کو خودکرناچاہئے کہ اِن سے کیا کیاتوتاہیاں اور غلطیاں ہوئی ہیںجن کی وجہ سے اِنہیں ناکامی کا ٹیکہ اپنے ماتھے پر لگانا پڑا ہے۔

مگر اِن تمام باتوں کے باوجود بھی آج افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اپنوں اور اغیار کے ہاتھوں کھلونا بنتی محسوس ہوتی رہی ہے اور یہ عناصراِسے خوداپنے وجود کو لھڑکھڑانے سے بھی نہ بچاسکے 2013 کے عام انتخابات میں جہاں پی پی پی حکومت اور صدرزرداری کی بہت سی خامیاں تھیں وہاں اِن کی ایک سب سے بڑی خامی یہ بھی تھی کہ صدرزرداری کے کچھ اپنے ایسے فرسودہ اقدامات بھی تھے جو اِن کی حکومت پر ٹیکہ بنے رہے جن میں ملک میںبڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، اقربأپروری سمیت بجلی گیس کی شکل میں بڑھتے ہوئے توانائی بحرانوں پر قابونہ پانا اورملک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ایماپر امرأکو بچاکر ملک کے غریب اور تنخوااہ دار محنت کش طبقے پر آر جی ایس ٹی اور ایسے ہی دیگر ٹیکسوں کا زبردستی نفاذ کرنا شامل ہے اِس سے پی پی پی کی نیک نامی پر ایک دھبہ لگا اوراِسی طرح ملک میں مہنگائی اور کرپشن کی روک تھام کی ناکامی کے باعث پی پی پی کو عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنامشکل ہوااوراِس کے ساتھ ہی پاکستانی قوم آج بھی چھ سال گزر جانے کے باوجود محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث عناصر کو سزا دلوانے کی شدت سے منتظر ہے جو کہ اب تک منظرِعام پر نہیں آسکے ہیںجبکہ پی پی پی اور زرداری حکومت کا پانچ سالہ دوربھی لپیٹ دیا گیا مگر وفاق کی زنجیربے نظیر بھٹو شہید کا ایک بھی قاتل نہ پکڑا گیااور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی ہے۔

ایسے میں آج بھی نہ صرف اہل پاکستان بلکہ جہاںکہیں بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے چاہنے والے موجود ہیںجن کے دلوں پر محترمہ بینظیر بھٹوشہیدرانی راج کرتی رہیں گیں اوروہ ہمیشہ زندہ رہیں گیں اِس موقع پر ہماری رب کائنات اللہ رب العزت سے تو بس یہی ایک دعاہے کہ اللہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی قبر پرتاقیامت اپنی رحمتیں برساتا رہے اور صدرِ پاکستان سمیت وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اورپی پی پی کی موجودہ قیادت کو اتنی ہمت اور توفیق دے کے وہ محترمہ شہیدکے قاتلوںکو تمام سیاسی اور ذاتی مصالحتوں سے بالاتر ہوکربے نقاب کریں اور اِنہیں اپنے موجودہ اقتدار کی مدت کے خاتمے سے قبل کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اپنااپنا اہم کردار ادا کریں۔(آمین)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com