بٹگرام کا سیاسی مستقبل۔۔۔کچھ بروقت کچھ قبل ازوقت

Battagram

Battagram

تحریر : عتیق ادریس بٹگرامی
ضلع بٹگرام ہزارہ ڈویژن میں شامل سات اضلاع میں سے ایک ہے، دوتحصیلوں پر مشتمل اس ضلع کی سیاست ہمیشہ بڑے بڑے قومی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی توجہ کا مرکز رہی ہے ،یہاں کی سیاسی تقدیر ماضی قریب تک چار مشہور خاندانوں کے گرد گھومتی رہی،البتہ ایک ایک بار مولانا عبدالحکیم مرحوم اور حاجی فقیر محمد کی قسمت بھی ماضی بعید میں جاگ اٹھی ہے،2002سے یہاں کے قومی سیٹ پر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے قاری محمد یوسف نے”چار”کو شکست سے”دوچار “کرکے سیاسی اکھاڑے میں دبنگ انٹری کی ہے،اب کی بار وہ ضلع بٹگرام سے دوسری بار ایم این اے شپ اپنے نام کرچکے ہیں،ماضی میں اسی سیٹ یعنی این اے بائیس سے مولانا عبدالحکیم،نواب آف الایئ، حاجی فقیر محمد،عالمزیب خان تھاکوٹ، مصباح بابر،قاری فقیر، سراج الحق سردار ملک جان اور کچھ اور لوگ بھی قسمت آزمایئ کرچکے ہیں، آمدہ انتخابات کے لیے ابھی سے پرانے زندہ امیدواران کے علاوہ کچھ نئے حضرات بھی پر تول رہے ہیں۔

اہلسنت والجماعت جو خیبر پختون میں بالعموم اور ہزارہ ڈویژن میں بالخصوص اپنے صوبائی قائد کی بصیرت کی بدولت ایک مضبوط مذہبی سیاسی قوت بن چکی ہے۔گزشتہ روز اہلسنت والجماعت کے مرکزی صدر نے تھائی ہوٹل میں پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے امیدوار سردار سلطان بلوچ کو بھی اسی حلقے سے نامزد کیاہے،واضح رہے اہلسنت یہاں اچھی خاصی مضبوط سیاسی قوت اور ووٹ بینک رکھتی ہے۔دوسری طرف جمیعت کے مرکزی قیادت کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے کہ اس حلقے سے آنےوالے انتخابات کے لئے ان کا امیدوار کون ہوگا۔۔؟البتہ عوامی اور جمیعت کے جیالے کارکنوں کا مطالبہ سوشل میڈیا و دیگر ذرائع سے دیکھنے کو ملتا ہے وہ اپنے مرکزی قیادت سے اس بار مولانا رشید احمد کوٹکٹ دینے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ بٹگرام کے قومی اسمبلی کے اس نشست سے تعلق رکھنے والے جے یو آیی کانظریاتی ووٹ مسلم ہے یقینا اس حقیقت سے صرف نظر کرنا مشکل ہوگا۔اگر اس نششت پر جے یو آیئ اور ا ہلسنت کی کچھ لے دے ہوجائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ سیٹ ایک بارپھر مذہبی پارٹی کی گود میں آجائے ورنہ یہ سیٹ ماضی کی طرح”چار “میں سے کسی کے پاس جاسکتی ہے۔

حلقہ پی کے انسٹھ صوبائی اسمبلی کا معرکہ ہی ضلعے کا اصل میدان ہوتا ہے یہاں ایک طرف بٹگرام کے بابائے سیاست یوسف ترند جبکہ دوسری طرف موجودہ ایم پی اے کا خاندان سیاسی حریف ہوتے تھے اور مبصرین اور تجزیہ نگاروں بھی انہی دو خاندانوں کو مضوع بحث بناتے رہے،مگر گزشتہ انتخابات میں یہاں ایک اور امیدوار سامنے آئے جن کے انتخابی نتیجے نے دونوں خاندانوں کو آئنہ دکھاکر ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا ۔میری مراداہلسنت والجماعت کے صوبائی صدر علامہ عطاء محمد دیشانی ہے،بلامبالغہ عطاء محمد دیشانی صاحب اس سیٹ کے لئے ہوم ورک مکمل کرچکے ہیں، بغیر کسی سرکاری عہدے کے انہوں نے عوامی حقوق کی جنگ شروع کی ہے،ابھی تک کے زمینی حقائق کے روشنی میں اس حلقے سے مضبوط امیدوار بھی آپ ہی ہے ۔بٹگرام کے غریب عوام دیشانی کو مسیحا کی رھوپ دیکھنا چاہتے ہیں، خان ازم سے تنگ عوام کا چوائس بھی دیشانی ہی ہے،ینگ جنریشن اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی پسندیدگی کے علاوہ دیشانی صاحب ایک مضبوط خاندانی پس منظر کےساتھ ساتھ جماعت کا کثیر تعداد میں نظریاتی ووٹ بھی رکھتے ہیں ۔میرے خیال میں اس نشست سے اصل مقابلہ دیشانی اور ترند کےمابین ہو گا۔

حلقہ پی کے ساٹھ الائی سے جمیعت کے شاہ حسین ہیٹرک کرچکے ہیں دیگر پارٹیاں بھی ایڑھی زور لگا رہے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تووقت ہی بتائے گا البتہ یہاں بھی اصل معرکہ کے اہم فریق شاہ حسین ہی ہونگے

تحریر : عتیق ادریس بٹگرامی